سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
مشرکینِ مکہ کے خلاف غزوات کامختصرتذکرہ اورتنقیدی جائزہ : رسول اللہﷺنے تو’’بقائے باہمی‘‘کے سنہری اصول کواپناتے ہوئے مدنی زندگی کے بالکل آغازمیں ہی ’’میثاقِ مدینہ‘‘کے ذریعے وہاں آبادغیرمسلم اقوام کیلئے جذبۂ خیرسگالی کااظہارفرمایا، لیکن افسوس کہ دوسری طرف مسلمانوں کیلئے کوئی خیرسگالی نہیں تھی ،بلکہ وہاں توشب وروزمسلمانوں کے خلاف نفرتوں اورسازشوں کے تانے بانے بنے جارہے تھے، اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ افسوس ناک اورقبیح ترین کردار’’رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی‘‘ کاتھا۔ انہی نامساعدحالات میں مزیدپریشانی یہ کھڑی ہوگئی کہ رسول اللہﷺکوباوثوق ذرائع سے یہ اطلاع ملی کہ اُدھرمکہ میں مشرکین بھی مسلسل مسلمانوں کے خلاف جلدازجلدکوئی فیصلہ کن اقدام کرناچاہتے ہیں اوراس مقصدکیلئے زوروشورکے ساتھ منصوبہ بندی کی جارہی ہے، کیونکہ مشرکین کویہ بات ہرگزگوارانہیں تھی کہ مسلمان ان کے شکنجے سے نکلنے کے بعداب مدینہ میں جاکرسکون واطمینان کی زندگی بسرکریں، وہاں پھلتے پھولتے رہیں اوران کی قوت میں اضافہ ہوتاچلاجائے،بالخصوص انہیں اُس تجارتی شاہراہ کی وجہ سے بہت زیادہ پریشانی لاحق تھی کہ جس پرسفرکرتے ہوئے ان کے تجارتی قافلے مکہ سے ملکِ شام آتے جاتے تھے، اوروہ شاہراہ مدینہ کے قریب سے گذرتی تھی۔ ایسی ہی صورتِ حال میں ایک روزمشرکینِ مکہ کے چندسرداروں کی طرف سے مدینہ میں ’’رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی‘‘کوایک خط موصول ہوا،جس میں مشرکینِ مکہ کی طرف سے