سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
تھے ،ہمیشہ مسلمانوں کے درپے آزار رہتے تھے،انتہائی بہادر ٗدلیراورتندرست وتواناقسم کے انسان تھے،مکہ میں ان کابہت زیادہ رعب اوردبدبہ تھا،بڑے بڑے بہادراورجوان ان کے نام سے لرزتے تھے… جیساکہ مشہورصحابیٔ رسولؐ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمرؓکاقبولِ اسلام ہم مسلمانوں کیلئے عزت کاذریعہ اورفتح ونصرت کاپیش خیمہ تھا، ہم مسلمانوں نے عمرؓکے قبولِ اسلام کے بعدپہلی بارعلیٰ الاعلان اورکھلے عام بیت اللہ کاطواف کیااوروہاں نمازاداکی،اس سے قبل ہمیں کبھی یہ جرأت نہوئی تھی(۱)ترغیب وترہیب کاسلسلہ : مشرکینِ مکہ کے وفدکی حبشہ سے ناکام واپسی … اورپھراس کے فوری بعدحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ٗ اورپھرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام … یہ پے درپے ایسے واقعات تھے جن سے مشرکینِ مکہ انتہائی افسردہ وپژمردہ ہوگئے اوران کے حوصلے پست پڑنے لگے… لہٰذا پیغمبرِاسلام اورمسلمانوں کے خلاف اپنی تمامتر نفرت وعداوت کے باوجوداب انہوں مسلمانوں کے ساتھ مصالحتی رویہ اپنانے کافیصلہ کیااوراس سلسلے میں گفت وشنیدکی غرض سے انہوں نے متعددباررسول اللہ ﷺسے ٗ نیزابوطالب سے ملاقاتیں کیں ٗ جوکہ آپؐکے چچابھی تھے اورسرپرست بھی۔ ٭…چنانچہ اسی سلسلے میں مشرکینِ مکہ نے اپنے ایک مشہورسردارعتبہ کوآپؐکے ساتھ ------------------------------ (۱) ما زلنا أعزّۃ منذ أسلم عمر (صحیح البخاري ، باب اسلام عمر) ولقد رأیتنا ما نستطیع أن نصلّي الیٰ البیت حتیٰ أسلم عمر (طبقات ابن سعد۳/۲۷) انّ اسلامہ کان نصراً (المعجم الکبیر للطبراني۹/۱۸۱) دین کے معاملے میںحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی اسی بے مثال جرأت وشجاعت کی وجہ سے ہی رسول اللہ ﷺنے انہیں ’’فاروق‘‘کالقب عطاء فرمایاتھا۔