سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
وصیت فرمائی۔ اوراس کے بعدآپ ﷺنے اپنی ازواجِ مطہرات کوبلوایااورانہیں چندنصیحتیں فرمائیں، اسی دوران آپؐکی طبیعت زیادہ ناسازہونے لگی …اورتب اسی کیفیت اورشدیدنقاہت وکمزوری کی حالت میں اپنی امت کویہ آخری وصیت فرمائی ’’الصّلاۃ ، الصّلاۃ … وَمَا مَلَکَتْ أیمَانُکُم‘‘یعنی’’نمازکی پابندی کرتے رہنا…اوروہ لوگ جوتمہارے ماتحت ہیں ٗ ان کے ساتھ ہمیشہ حسنِ سلوک سے پیش آنا‘‘(۱)یہ الفاظ آپﷺ نے متعدد بار دہرائے۔ اسی دوران نوجوان اُسامہ بن زیدرضی اللہ عنہمااندرداخل ہوئے ٗجنہیں دیکھ کرآپﷺ نے دونوں ہاتھ فضاء میں بلندکئے …یہ منظردیکھ کروہاں موجودافرادسمجھ گئے کہ آپؐ حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کیلئے کامیابی کی دعاء فرمارہے ہیں۔(۲) انہی آخری لمحات میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے بھائی عبدالرحمن ؓوہاں آئے،ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی،آپؐ مسواک کی جانب بغوردیکھنے لگے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاچونکہ مزاج شناس ------------------------------ (۱) ’’ماتحت ‘‘میں انسان کیلئے اس کے اہل وعیال ٗ خادم ٗ اور اس کے ماتحت افراد…وغیرہ …سبھی شامل ہیں، یعنی سبھی کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت فرمائی۔ (۲)رسول اللہﷺ نے آخری ایام میں سلطنتِ روم کے خلاف کارروائی کی غرض سے ایک لشکرکی روانگی کاحکم صادرفرمایاتھا، اس لشکرکاسپہ سالارآپؐنے حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہماکومقررفرمایاتھا جوکہ اُس وقت بالکل نوجوان تھے ، آپؐ کی ناسازیٔ طبع کی وجہ سے یہ لشکرمدینہ سے کچھ فاصلے پرپہنچ کررک گیاتھا،حضرت اسامہ ؓ واپس مدینہ پہنچے تھے تاکہ خودآپؐ کی طبیعت کے بارے میں صورتِ حال سے آگاہی ہوسکے…اس موقع پریہ صورتِ حال پیش آئی تھی جواوپربیان کی گئی ،یعنی کمزوری اورشدتِ مرض کی وجہ سے چونکہ آپؐکیلئے گفتگوکرنادشوار تھا…لہٰذااس موقع پرآپؐ نے دونوں ہاتھ اٹھاکراشارے سے حضرت ا سامہ رضی اللہ عنہ کودعائے خیردی۔