سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ساتھی اورہمنواتھے۔ لیکن اب رسول اللہﷺکی وہاں تشریف آوری اور بیس روزہ قیام کے موقع پران میں سے متعدد قبائل کے سرکردہ افراداوررہنماآپؐکی خدمت میں ازخودحاضرہوئے،اوراپنی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ہرقسم کی جارحیت سے بازرہنے کایقین دلاتے ہوئے صلح کی خواہش نیزجذبۂ خیرسگالی کااظہارکیا…یہ بات مسلمانوں کیلئے یقینا باعثِ مسرت تھی۔ ٭…مدینہ اوراس کے مضافات میں اب تک منافقین کی بڑی تعدادموجودتھی،جوکہ چھپے ہوئے دشمن اورآستین کے سانپ کی حیثیت رکھتے تھے،مسلمانوں کی ان بڑھتی ہوئی فتوحات سے وہ انتہائی نالاں اوررنجیدہ تھے،دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کونقصان پہنچانے کیلئے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتے تھے،پہلے وہ مشرکینِ مکہ کے ساتھ مل کرمسلمانوں کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف رہتے تھے،اب مزیدیہ کہ انہوں نے مسلمانوں کے ایک اوربڑے دشمن اورروئے زمین کی بہت بڑی قوت یعنی ’’سلطنتِ روم‘‘ کے ساتھ بھی خفیہ تعلقات استوارکرلئے تھے،مسلمانوں کی خبریں وہ خفیہ طورپر رومیوں تک پہنچایاکرتے تھے ،نیزمدینہ میں خفیہ مقامات پروہ مسلمانوں کونقصان پہنچانے اوران کے خلاف سارشیں تیارکرنے اورخفیہ منصوبے تیارکرنے کی غرض سے خفیہ اجتماعات منعقدکیا کرتے تھے،چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقع پرجوکچھ ہوااس میںبھی انہی کی طرف سے پھیلائی گئی افواہوں کابہت بڑاعمل دخل تھا،مسلمانوں میں تشویش اورافراتفری پھیلانے نیزانہیں خوفزدہ وپریشان کرنے کی غرض سے یہی منافقین ٗ رومیوں کی طرف سے مدینہ پر بڑے تباہ کن حملے کیلئے تیاریوں کی چھوٹی خبریں پھیلاتے رہے،اورپھرجب رسول اللہ ﷺ اپنے لشکرکے ہمراہ تبوک کی جانب روانہ ہوئے تب یہ ایک دوسرے کومبارکباددیتے