سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
کسی اورغزوے کے موقع پراتنی آیات نازل نہیں ہوئیں،اس سے بھی اس غزوے کی خاص اہمیت واضح ہوتی ہے۔(۱) ٭…رسول اللہﷺکامعمول یہ تھاکہ اس سے قبل ہمیشہ احتیاطی تدبیرکے طور پرآپؐ ہرغزوے کے موقع پررازداری سے کام لیاکرتے تھے،مثلاًیہ کہ لشکرکی روانگی کب ہوگی؟کس راستے پرسفرکیاجائے گا…؟وغیرہ وغیرہ…تاکہ دشمن کوآپؐ کے منصوبوں کے بارے میں کوئی پیشگی معلومات حاصل نہوسکیں۔ لیکن اس غزوے کے موقع پرچونکہ مذکورہ بالاتمام مشکلات کی وجہ سے صورتِ حال کافی نزاکت اختیارکرچکی تھی اورمعاملہ بہت حساس ہوچکاتھا…لہٰذارسول اللہﷺنے رازداری سے کام لینے اورمعاملات کوخفیہ رکھنے کی بجائے تیاری کاعام اعلان فرمادیا، نیز دوردرازکے علاقوں مثلاًمکہ اورطائف وغیرہ تک آپؐنے قاصدروانہ فرمائے تاکہ وہاں جاکر لوگوں کواس غزوے میں شرکت سے متعلق آپؐکی طرف سے پیغام پہنچائیں،جس پر دوردرازکے علاقوں سے بھی نہایت جوش وجذبے کے ساتھ بڑی تعدادمیں دستے مدینہ پہنچنے لگے۔ آخراپنی طرف سے مناسب تیاری کرلینے کے بعدرسول اللہﷺتیس ہزارجاں نثاروں پر مشتمل اپنے لشکرکی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے تبوک کی جانب رواں دواں ہوگئے اور تقریباًایک ہزارکلومیٹرکایہ سفرپندرہ دن میں طے کیاگیا۔ منزلِ مقصودیعنی ’’تبوک‘‘کے مقام پرپہنچنے کے بعداللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں ------------------------------ (۲) اس غزوے سے متعلق نازل شدہ آیات سورہ ’’توبہ‘‘میں ہیں،بلکہ اس سورت کانام ’’توبہ‘‘جس واقعے کی طرف نسبت کی وجہ سے معروف ہوگیاٗتوبہ کے اس واقعے کاتعلق بھی اسی غزوۂ تبوک ہی سے ہے۔