سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
جس کے جنگ لڑنے کے اندازاورطورطریقے بھی یقینامختلف ہوں گے…شایدسامانِ جنگ اورفنونِ حرب بھی جداہوں گے(۱)رسول اللہﷺکے جاں نثارصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ا یمانی کیفیت کے لحاظ سے جن بلندیوں پرتھے ٗیقینااس میں کسی شک وشبہہ کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ہے…لیکن یہ بھی توحقیقت ہے کہ وہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھے…وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہی تھے…لہٰذایہ تمام باتیں ان کیلئے بھی یقیناپریشانی کاباعث تھیں(۲) ٭…یہ سفربہت زیادہ طویل تھا،مدینہ سے تبوک تک مسافت بہت زیادہ تھی اورراستہ کافی دشوارگذاربھی تھا،سفری سہولتوں کافقدان تھا،اس سے قبل کبھی کسی غزوے کے موقع پراس قدرطویل سفرکی نوبت نہیں آئی تھی۔ ٭…یہ غزوہ ایسے موسم میں پیش آیاکہ جب قحط سالی چل رہی تھی ،غلہ واناج کی کمی تھی ، ------------------------------ (۱) اگرچہ اس سے صرف ایک سال قبل ہی یعنی سن آٹھ ہجری میں سلطنتِ روم کے خلاف مشہورومعروف’’غزوۂ مؤتہ‘‘کی نوبت آئی تھی ،اس موقع پراگرچہ جنگ شروع ہونے کے بعدصورتِ حال یقینا نازک اورخطرناک ہوگئی تھی…لیکن ابتداء میں وہ معاملہ دراصل اس قدرنازک نہیں تھا، کیونکہ وہ تورومیوں کے ایک ظالم وجابرگورنرکے ہاتھوں رسول اللہﷺکے ایک قاصدکوناحق قتل کئے جانے کے بعدجوابی اورتأدیبی کارروائی کی غرض سے ایک مہم ملکِ شام کی جانب روانہ کی گئی تھی…مزیدیہ کہ اس موقع پررسول اللہﷺنے بھی شرکت نہیں فرمائی تھی… جبکہ باقاعدہ علیٰ الاعلان سلطنتِ روم کے خلاف ایک بڑی جنگ کی حیثیت سے یہی ’’غزوۂ تبوک‘‘ہی پہلاموقع تھا۔ (۲) بلکہ یہ توان کی مزیدرفعتِ شان کاواضح ثبوت ہے کہ اس قدرنازک اورخطرناک ترین صورتِ حال اوراتنی زیادہ مشکلات کے باوجودان کے قدم ڈگمگائے نہیں…اورنہ ہی ان کی استقامت میں کوئی لغزش آسکی… اورکس طرح اللہ پرتوکل کئے ہوئے وہ حضرات بغیرکسی ٹال مٹول اوربغیرکسی ترددکے …جان ہتھیلی پرلئے ہوئے … رسول اللہﷺکے ہمراہ تبوک کی جانب رواں دواں ہوگئے…!!