سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
تھے،اوراسی وجہ سے یہ غزوہ بہت زیادہ اہمیت اختیارکرگیاتھا…مثلاًیہ کہ: ٭…یہ جنگ اُس دورمیں تمام روئے زمین کی سب سے بڑی اورنہایت خطرناک قوت یعنی’’سلطنتِ روم‘‘کے خلاف لڑی جانے والی تھی۔ ٭…اس سے قبل جتنے غزوات پیش آئے تھے وہ سب مشرکینِ عرب کے خلاف لڑے گئے تھے،اگرچہ چندغزوات یہودکے خلاف بھی لڑے گئے تھے ،لیکن وہ یہودصدیوں سے جزیرۃ العرب میں ہی آبادتھے،لہٰذازبان ٗلب ولہجہ ٗرہن سہن ٗنیزفنونِ حرب وغیرہ کے لحاظ سے وہ کافی حدتک مقامی عرب باشندوں جیسے ہی تھے۔ مقصدیہ کہ گذشتہ تمام جنگوں کے موقع پراگرچہ عقیدہ وایمان کے لحاظ سے توظاہرہے کہ مسلمانوں میں اوران کے مدِمقابل دشمنوں میں زمین وآسمان کافرق تھا…البتہ زبان ٗ لب ولہجہٗ فنونِ حرب ٗاورسامانِ جنگ وغیرہ کے لحاظ سے دونوں میں مکمل مماثلت تھی … جواسلحہ مسلمانوں کے پاس تھا ٗوہی دشمن کے پاس بھی تھا،جنگ لڑنے کے جوطورطریقے مسلمانوں کے تھے ٗ وہی دشمن کے بھی تھے…جوزبان مسلمان بولتے تھے ٗوہی زبان دشمن بھی بولتے تھے…البتہ فرق صرف تعدادکاتھا…یعنی سامانِ جنگ کی نوعیت میں تواگرچہ مماثلت تھی لیکن تعدادمیں بہت فرق تھا…مسلمانوںکی تعدادہمیشہ کم رہی جبکہ دشمن ہمیشہ بڑے لشکرِجرارکے ہمراہ یلغارکرتارہا…مسلمانوں کوہمیشہ سامانِ جنگ کی قلت درپیش رہی ٗ جبکہ دشمن کے پاس ہمیشہ سامانِ جنگ نیزہرقسم کے اسباب ووسائل کی خوب فراوانی رہی…! اب غزوۂ تبوک جب درپیش آیاتویہ پہلاموقع تھاکہ دشمن بالکل نیااورنامانوس تھا… ایک بالکل نئے اوراجنبی دشمن کے ساتھ مقابلے کی نوبت آرہی تھی کہ جس کی زبان بھی مختلف تھی ،