سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
مجھے دیکھئے …میں آپ کے سامنے کھڑی ہوں …سفّانہ…حاتم طائی کی بیٹی… میرا باپ جوہمیشہ مجبورولاچارلوگوں کی مددکیاکرتاتھا…بے آسرااوربے ٹھکانہ لوگوں کوٹھکانہ فراہم کیاکرتاتھا…آج میں اس کی بیٹی خودمجبورہوں …لاچارہوں…اوربے ٹھکانہ ہوں…! رسول اللہﷺاس کی اس گفتگوسے بہت زیادہ متأثرہوئے،اورچونکہ اس کاباپ انتہائی سخی انسان تھا…اورظاہرہے کہ سخاوت ومہربانی ٗمہمان نوازی اورانسان دوستی…یہ سب کچھ تویقینااعلیٰ ترین اخلاق میں سے ہے…لہٰذاآپؐنے اس کی اس خوش اخلاقی کالحاظ کیا…اورجب اس کی خوش اخلاقی کالحاظ کیاتوپھرمزیدیہ کہ آپؐنے اس کی اس بیٹی کا بھی لحاظ کیا…کہ …عظیم باپ کی عظیم بیٹی ہے…اورپھرآپؐنے اس کے ساتھ خوب اکرام کامعاملہ فرماتے ہوئے اسے بہت سے ہدایاوتحائف عنایت فرمائے،نیزاس کیلئے آزادی اوراس قیدسے رہائی کااعلان بھی فرمایا۔ رسول اللہﷺکی طرف سے اس انعام واکرام اورحسنِ سلوک اورپھراپنی رہائی کی یہ خوشخبری سننے کے بعداس نے نہایت گرمجوشی کے ساتھ آپؐکاشکریہ اداکیا…البتہ اس موقع پراس نے اس بات کاعملی ثبوت پیش کیاکہ واقعی وہ عظیم باپ کی عظیم بیٹی تھی… چنانچہ رسول اللہﷺکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے وہ یوں کہنے لگی کہ ’’اے اللہ کے رسول! میں اکیلی آزادہوجاؤں… اوریہاں سے اپنے علاقے کی طرف چلتی بنوں…جبکہ یہ میرے قبیلے والے سبھی لوگ یہاں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہیں…میں ایسانہیں کرسکتی…لہٰذا…یاتومیں بھی انہی کے ساتھ یہاں مسلسل قیدمیں ہی رہوں گی، اوریایہ سب میرے ہمراہ جائیں گے‘‘۔