سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
مواقع پر’’خاموشی‘‘ اور’’بے زبانی‘‘ہی بہترین زبان ہواکرتی ہے…لہٰذارسول اللہ ﷺ نے ان مہاجرین حضرات کے ساتھ اس بارے میں کسی بات چیت کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔ جبکہ حضرات انصارکاتعلق مدینہ سے تھا،یقیناان کے ساتھ بھی رسول اللہﷺکی بہت زیادہ ’’قربتیں‘‘تھیں ، لیکن ان تمامتر’’قربتوں‘‘کے باوجودباقاعدہ ’’قرابت داری‘‘نہیں تھی،اگرچہ آپؐ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ پرانے مہاجرین کی طرح ان انصار کا مقام ومرتبہ بھی یقینابہت بلندہے…انصارکامقام ومرتبہ بھی دنیاکے اس حقیرمال ومتاع سے بہت بڑھ کرہے…ان کے نزدیک دنیاوی مال واسباب کی کوئی حیثیت نہیں،ان کی اصل پونجی توبس اللہ اوررسول ؐکی محبت ہے…مزیدیہ کہ یہ انصارِمدینہ اس سے قبل متعدد مواقع پراپنی اسی ایمانی واخلاقی کیفیت ٗاپنے اسی جذبے ٗاوراپنے اسی بے مثال ’’ایثار‘‘کاعملی طورپراظہاربھی کرچکے تھے…لیکن اس تمامترمقام ومرتبے کے باوجود… اوران تمامترحقائق کے باوجود…آخروہ بھی گوشت پوست کے انسان ہی تھے…کوئی فرشتے نہیں تھے…کوئی آسمانی مخلوق نہیں تھے…ان کے دلوں میں بھی انسانی جذبات تھے…ان کی بھی ’’مالی ضروریات ‘‘تھیں…لہٰذاعین ممکن تھاکہ شایدان میں سے کسی کے دل میںاس’’تقسیم‘‘کے بارے میں کوئی ’’وسوسہ‘‘پیداہونے لگے…! لہٰذاآپؐنے مناسب سمجھاکہ اس بارے میں ان کے ساتھ مناسب’’گفتگو‘‘کرلی جائے…چنانچہ آپ ؐ کی فرمائش پرتمام انصارِمدینہ ’’جِعِرّانہ‘‘(۱) نامی بستی میں ایک جگہ ------------------------------ (۱) اسی ’’جعرانہ ‘‘میں ہی تمامترمالِ غنیمت کی تقسیم کاکام انجام دیاگیاتھا،یہ بستی مکہ شہرسے کچھ فاصلے پر(طائف کے راستے میں)واقع ہے۔