سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
دیا،اسی سلسلے میں ’’سفرِطائف‘‘کاتاریخی واقعہ پیش آیا،نیزانہی دنوں آپؐ نے مشرکینِ مکہ کی بجائے بیرونِ مکہ سے آنے والے ان افرادوقبائل پراپنی توجہ زیادہ مرکوزکی جن کی حج وعمرہ کی ادائیگی کی غرض سے ٗیاتجارت کے سلسلے میں مکہ شہرمیں آمدورفت رہتی تھی،اسی سلسلے میںحج کے موقع پرمدینہ سے آئے ہوئے چندافرادکے قبولِ اسلام کاواقعہ ٗ اورپھر’’بیعتِ عقبہ‘‘کامشہورواقعہ پیش آیاتھا۔ اورپھربالآخر ۶ ہجری میں’’صلحِ حدیبیہ ‘‘کے نتیجے میں جب مشرکینِ مکہ کی جانب سے قدرے بے فکری نصیب ہوئی اورحالات سازگارمحسوس ہوئے توہجرت کے ساتویں سال آپؐنے ارشادِربانی {وَمَاأرْسَلنَاکَ اِلّاکَاْفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً} (۱) یعنی’’ہم نے آپ کوتمام لوگوں کیلئے خوشخبریاں سنانے والااورڈرانے والابناکر بھیجاہے‘‘ کے مصداق کے طورپر دعوت وتبلیغ کے اس سلسلے کوجزیرۃ العرب سے باہرکی دنیاتک وسعت دینے کاآغازفرمایا،اوراسی سلسلے میں مختلف فرمانرواؤں ٗ حکمرانوں ٗ امراء وسلاطین ٗ والیانِ ریاست ٗ اورسردارانِ قبائل کودعوتی خطوط ارسال کئے گئے۔ اس سلسلے میں درجِ ذیل امورقابلِ ذکرہیں: ٭…اُس دورمیں چونکہ یہ رواج تھاکہ کسی بھی قسم کی سرکاری خط وکتابت کیلئے مہرکو ضروری تصورکیاجاتاتھا،ان فرمانرواؤں کے شاہی درباروں میں پہنچنے والاکوئی ایساخط قبول نہیں کیاجاتاتھاکہ جس پرلکھنے والے کی مہرثبت نہو، بغیرمہرکے خط کوجعلی اورنقلی تصورکیا جاتاتھا۔ چنانچہ رسول اللہﷺنے ان فرمانرؤاوں کے ساتھ دعوتِ اسلام کے سلسلے میںخط وکتابت ------------------------------ (۱)سبا[۲۸]