سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
رسول اللہﷺنے اللہ کے دین کی طرف دعوت کاجوفریضہ انجام دیا ٗاس میںبھی ’’اصلاح‘‘ کایہی بنیادی اصول کارفرمانظرآتاہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ: آپؐ کے اعلیٰ اخلاق ٗ بے داغ کردار اورپاکیزہ سیرت کے اپنے اورپرائے سبھی معترف تھے۔ اس کے بعدجب آپؐ کونبوت سے سرفرازکیاگیااوراللہ کاپیغام پہنچانے کافریضہ سونپاگیا ٗ تب آپؐنے سب سے پہلے اپنے اہلِ خانہ کودینِ حق قبول کرنے کی دعوت دی ۔ اس کے بعدجب اللہ کی طرف سے اپنے حبیبﷺکیلئے یہ حکم نازل ہوا: {وَأَنْذِر عَشِیْرَتَکَ الأقْرَبِینَ} (۱) یعنی:’’آپ اپنے قریبی رشتے داروں کوڈرایئے‘‘تب آپؐنے بنوہاشم اوربنوعبدالمطلب کواللہ کاپیغام پہنچاتے ہوئے دینِ برحق کی طرف بلایا، اوراسی سلسلے میں ’’کوہِ صفا‘‘پراجتماع کامشہورواقعہ پیش آیاتھا۔ اورپھرجب آیت ـ:{فَاصْدَع بِمَا تُؤمَرُ وَأَعرِضْ عنِ المُشْرِکِینَ} (۲) یعنی:’’آپ کوجس چیزکاحکم دیاجارہاہے اسے آپ کھول کرسنادیجئے اورمشرکین سے منہ پھیرلیجئے‘‘ (۳) نازل ہوئی تواس ارشادِربانی کی تعمیل کے طورپرآپؐنے دعوت ِدین کے اس سلسلے کووسعت دیتے ہوئے تمام مکہ والوں کواللہ کاپیغام پہنچایا ٗ جس کے نتیجے میں مشرکینِ مکہ کی جانب سے ایذاء رسانیوں کاآغازہوا۔ اس کے بعدآپؐ نے مکہ شہرسے باہرقرب وجوارکے علاقوں میں دعوت کافریضہ سرانجام ------------------------------ (۱)النمل[۲۱۴] (۲)الحجر[۹۴] (۳)یعنی اب رسول اللہ ﷺکویہ حکم دیاگیاکہ چھپ کرتبلیغ کرنے کی بجائے کھلم کھلااورعلیٰ الاعلان اللہ کے دین کی تبلیغ کریں ،اوراس سلسلے میں مشرکینِ مکہ کی طرف سے مخالفت وعداوت کاجب سامناکرناپڑے توان سے الجھنے کی بجائے ٗیااس بات پرافسردہ ہونے کی بجائے ان سے منہ موڑلیں (یعنی بس اللہ پربھروسہ رکھیں اورافسردہ ورنجیدہ نہوں…)