سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اپنے تمام صحابۂ کرام سے ’’جاں نثاری‘‘کی بیعت لی۔(۱) اب مسلمان ذہنی طورپر’’جنگ‘‘کیلئے مکمل آمادہ ہوچکے تھے،اور’’جاں نثاری‘‘کی بیعت بھی کرچکے تھے،اوراب ان کے جذبات عروج پرتھے۔ مشرکینِ مکہ نے اب مسلمانوں کے یہ بدلے ہوئے تیوردیکھے اوریہ ناقابلِ تسخیرجذبہ اور زبردست قسم کا جوش وخروش دیکھا… تووہ مرعوب اورخوفزدہ ہوگئے ،اورنہ صرف یہ کہ اب انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کورہاکردیا بلکہ مزیدیہ کہ اب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ’’صلح‘‘کاپیغام بھی بھجوایا…آپؐ نے ہمیشہ کی طرح اب بھی ’’صلح پسندی‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے اس پیغام کوقبول فرمایا۔ گفت وشنیدکاآغازہوا، مشرکینِ مکہ نے اس موقع پرتمام شرائط اپنی پسندکی پیش کیں ، جن میں ان کاخالص مفادتھا… جبکہ مسلمانوں کیلئے انہیں قبول کرنے میںسراسرنقصان تھا… لہٰذایہ شرائط تمام مسلمانوںکیلئے ناقابلِ قبول تھیں۔ خصوصاً یہ کہ سب سے پہلی شرط انہوں نے یہ پیش کی کہ اس سال مسلمان عمرہ کئے بغیرواپس چلے جائیں اورآئندہ سال آکرعمرہ کریں ٗ نیزیہ کہ بالکل خالی ہاتھ اورغیرمسلح ہوکرآئیں۔ ------------------------------ (۱)اس بیعت کے بارے میںقرآن کریم میں ارشادہے:{لَقَد رَضِيَ اللّہُ عَنِ المُؤمِنِینَ اِذ یُبَایِعُونَکَ تَحتَ الشَّجَرَۃِ …} یعنی’’یقینااللہ راضی ہوگیامؤمنوں سے جبکہ وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کررہے تھے…‘‘ (سورۃ الفتح: ۱۸) یعنی اس آیت ٗ نیزاس کے بعدچندآیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ان خوش نصیب افراد کیلئے پکے اوسچے مؤمن ہونے کی گواہی دی گئی ہے جواس بیعت میں شریک ہوئے ،نیزانہیںاللہ کی طرف سے متعددخوشبریوں سے نوازاگیا،جن میں اہم ترین خوشخبری یہ تھی کہ انہیں ہمیشہ کیلئے اللہ کی طرف سے ’’رضامندی وخوشنودی‘‘سے شادکام کیاگیا…یہی وجہ ہے کہ اس یادگاراورمبارک ترین بیعت کو’’بیعتِ رضوان‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے، اوراس موقع پرجتنے مسلمان موجودتھے ان کی بڑی فضیلت ومنقبت ہے۔