سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اس کے بعدرسول اللہﷺنے فیصلہ فرمایاکہ مشرکینِ مکہ کے ساتھ مزیدگفت وشنیدکی غرض سے اپنے صحابہ میں سے کسی کومکہ روانہ کیاجائے،اورغوروفکرکے بعداس مقصدکیلئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاانتخاب کیاگیا،چنانچہ رسول اللہﷺکے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مکہ پہنچے ،لیکن مشرکینِ مکہ نے ان کی کوئی بات سننے کی بجائے انہیں نظربندکردیا،مزیدیہ کہ مسلمانوں کونفسیاتی صدمہ پہنچانے کی غرض سے یہ افواہ پھیلادی کہ ہم نے عثمان کوقتل کردیاہے۔ ظاہرہے کہ یہ خبررسول اللہﷺ کیلئے نیزآپؐکے تمام جاں نثارساتھیوں کیلئے انتہائی تشویش ناک اوربڑے صدمے کاباعث تھی،لہٰذاآپؐ نے یہ افسوسناک خبرسننے کے بعد اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا’’عثمان کے خون کابدلہ لینافرض ہے‘‘یہ ارشادفرمانے کے بعدآپؐوہاں ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اوروہاں موجود ------------------------------ (باقی ازحاشیہ صفحۂ گذشتہ) سے آئے ہوئے اس سردارکوبھیجاجس کانام عروہ بن مسعودالثقفی تھا، واضح ہوکہ اگرچہ اس موقع پراس جھڑپ کی وجہ سے عروہ واپس چلے گئے تھے،لیکن رسول اللہﷺ کے ساتھ یہ مختصرسی ملاقات ان کے دل میںہمیشہ کیلئے نقش ہوکررہ گئی تھی اوروہ بہت زیادہ متأثرہوئے تھے،آخردوسال بعد(سن آٹھ ہجری میں) غزوۂ طائف کے موقع پریہ مسلمان ہوگئے تھے اورجب قبولِ اسلام کے بعدانہوں نے اپنی قوم کودینِ اسلام کی طرف دعوت وتبلیغ کاسلسلہ شروع کیاتوان کی قوم کو یہ بات پسندنہ آئی،اورایک روزجب یہ کسی ٹیلے پرچڑھے ہوئے نمازکیلئے اذان دے رہے تھے توان کی قوم سے رہا نہ گیااورانہوں نے چاروں طرف سے ان پرتیروں کی بوچھاڑکردی(حالانکہ یہ ان کے سردارتھے) جس کے نتیجے میں یہ شہیدہوگئے… یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکرہے کہ بعدمیں ان کی ایک صاحبزادی’’ام سعید‘‘کاحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح ہواتھا،جن سے ان کی دوبیٹیاں تھیں ’’ام حسن‘‘اور’’رملہ‘‘۔ (ملاحظہ ہو: البدایہ والنہایہ۔فصل فی ذکرزوجاتہ وبنیہ وبناتہ…/ج:۱۱۔ص:۲۴۔طبعۃ :دارہجر)