سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
پراُس وقت آپﷺ کوسب سے زیادہ بھروسہ تھا،یعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، اورپھرفوراًہی وہ دونوں رات کی تاریکی میں گھرکے عقبی دروازے سے نکل کرایک نئی منزل کی جانب روانہ ہوگئے…، مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے شمال کی جانب واقع تھا،لیکن یہ دونوں حضرات بالکل مخالف سمت میں یعنی جنوب کی طرف چل دئیے،رات کے اندھیرے میں دشوارگذارپہاڑی راستوں پرکہ جہاںہرطرف نوکیلے سنگ ریزوں کی بھرمارتھی… دونوںمسلسل پاپیادہ چلتے رہے…، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کبھی رسولﷺ کے آگے چلتے… کبھی پیچھے… کبھی دائیں… اورکبھی بائیں… یوں وہ بارباراپنی جگہ تبدیل کرتے… گویابڑی بے چینی میں مبتلاہوں … آپؐنے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو دریافت فرمایاکہ اے ابوبکر!کیابات ہے…؟ اس پرابوبکرؓنے جواب دیاکہ ’’اے اللہ کے رسول! کبھی مجھے یہ اندیشہ ہونے لگتاہے کہ ایسانہوکہ کوئی دشمن سامنے کہیں چھپا بیٹھا ہو اوروہ اچانک سامنے سے ظاہرہوکرآپ کوکوئی نقصان پہنچائے،اس لئے میں آپ کے آگے آگے چلنے لگتاہوں… اورپھریہ اندیشہ ہونے لگتاہے کہ ایسانہوکہ کوئی تعاقب کرنے والاکہیں پیچھے سے اچانک آجائے ،یہ سوچ کرمیں آپ کے پیچھے آجاتاہوں… پھریہ فکرستانے لگتی ہے کہ کہیں ایسا نہوکہ دائیں یابائیں کوئی دشمن کہیں گھات لگائے بیٹھاہو، اس لئے میں کبھی آپ کے دائیں چلنے لگتاہوں اورکبھی آپ کے بائیں…!! اسی کیفیت میں یہ دونوں حضرات مسلسل چلتے رہے… یہاں تک کہ تقریباً پانچ میل(یعنی تقریباًآٹھ کلومیٹر) کی مسافت پیدل طے کرنے کے بعدایک انتہائی بلندوبالاپہاڑکے دامن میں پہنچے ،اورانتہائی کٹھن اورمشکل ترین راستہ طے کرتے ہوئے اس کی چوٹی پرواقع ایک غارکے سامنے جاپہنچے جوکہ ’’غارِثور‘‘کے نام سے معروف ہے۔