سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
اجازت مانگی تھی،لیکن ہربارآپؐکی طرف سے جواب یہ ملاتھاکہ: یا أبابکر! لا تَعْجَل لَعَلّ اللّہَ یَجْعَل لَکَ صَاحِبا… یعنی’’اے ابوبکر! جلدی نہ کرو، شایداللہ تمہارے لئے کسی اچھے ہمسفرکاانتظام کردے‘‘۔اورتب حضرت ابوبکر ؓکے دل میں ایک تمناکروٹ لیتی … اورایک آرزوجاگ اٹھتی … اوروہ اس سوچ میں پڑجاتے کہ کاش میراوہ ’’اچھاہمسفر‘‘ خودرسول اللہﷺہی ہوں۔ انہی دنوں ایک روزمشرکینِ مکہ نے اپناایک ہنگامی اجلاس طلب کیاجس میں تمام رؤسائے قریش سرجوڑکربیٹھے اس بارے میں غوروفکراورتبادلۂ خیال کرتے رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آخراب کیاسلوک کیاجائے اوراس نئے دین کی نشرواشاعت کی روک تھام کیلئے کیافیصلہ کن اقدامات کئے جائیں…؟ ان میں سے کسی نے مشورہ دیاکہ رسول اللہﷺکوہمیشہ کیلئے قیدِ تنہائی میں ڈال دیاجائے، کسی نے کہاکہ ملک بدرکردیاجائے۔ آخرتمامتربحث ومباحثہ کے بعدوہ اس رائے پرمتفق ہوئے کہ نعوذباللہ آپؐکوقتل کردیاجائے۔جیساکہ اس ارشادِربانی میںاسی طرف اشارہ کیا گیا ہے :{وَ اِذ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ أو یَقْتُلُوکَ أو یُخْرِجُوکَ ، وَ یَمْکُرُونَ وَ یَمْکُرُ اللّہُ ، وَ اللّہُ خَیرُ المَاکِرِینَ} (۱) ترجمہ:(اوروہ وقت یاد کیجئے جب کافرلوگ آپ کے بارے میں تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کوقیدکردیں ٗ یا آپ کو قتل کرڈالیں ٗ یاآپ کوملک بدرکردیں ٗ اوروہ تواپنی تدبیریں کررہے تھے، اوراللہ اپنی تدبیر کررہاتھا،اوراللہ توبہترین تدبیرکرنے والاہے) ان رؤسائے قریش نے آپﷺ کے قتل کی مذموم وناپاک سازش کوعملی جامہ پہنانے ------------------------------ (۱)الأنفال [۳۰]