پس برادران اسلام کو چاہئے کہ ان کے سامنے کوئی مرزائی یا غیر مذہب والا جو علاوہ اہل سنت والجماعت کے ہو( جس کی بابت نبی علیہ التحیۃ والتسلیم نے ارشاد فرمائی ہے کہ میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے۔ ایک نجات پائے گا باقی نار میں جائیں گے اور فرقہ نجات پانے والا وہ ہوگا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔ سو وہ یہی فرقہ ہے کہ جس کے عقائد میں بحمد اﷲ تیرہ سو سال سے کچھ تغیر نہیں آیا، نیز نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ بڑے گروہ کی تابعداری کرو، اس لئے کہ جو جماعت سے جدا ہوا نار میں جدا کیا گیا۔ اگر اپنے پیشوا کا کوئی قول یا واقعہ نقل کرے اور اپنی طرف مائل کرنا چاہے تو تا وقتیکہ علماء سے اس کی جانچ نہ کرالے ہرگز باور نہ کرے۔ ہمارے برادران کا یہ عذر کہ علماء میں خود اختلاف ہے۔ ہم کس سے دریافت کریں۔ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا۔ کیونکہ علماء میں اگر بعض فروعی مسائل میں اختلاف ہے تو اس سے کوئی حرج متصور نہیں۔ اہل سنت ہونے کی حیثیت سے نیز دیگر مذاہب کے مقابل سب برابر ہیں۔ فتد بروا یاالاولی الابصار!
مرزا قادیانی کے جو حالات اور الہامات ذکر کئے جاتے ہیں۔ اصول مذکورہ کو پیش نظر رکھ کر ناظرین، انصاف کی عینک سے خود ملاحظہ فرمالیں کہ جس شخص کی ذاتی حالت ایسی ہے آیا وہ مجدد، مہدی، نبی، قابل اتباع ہوسکتا ہے یا نہیں۔ باقی مرزا قادیانی کی قرآن، حدیث اور اجماع امت کے ساتھ مخالفت، سو اسے کسی اور پرچے میں بشرط ضرورت انشاء اللہ ذکر کریں گے۔
مرزا قادیانی کے مختصر حالات
مرزا قادیانی قصبہ قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ مولانا مولوی ثناء اللہ صاحب فاتح قادیان نے تاریخ ولادت کی بابت یہ لکھا ہے کہ مرزا قادیانی کی تاریخ ولادت صاف تو ملتی نہیں۱؎۔ البتہ ان کی اپنی کتاب (تریاق القلوب ص۶۸، خزائن ج۱۵ ص۲۸۳) سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۲۶۱ھ مطابق تخمیناً ۱۸۴۵ء میں پیدا ہوئے۔ مئی ۱۹۰۸ء مطابق ۱۳۲۶ھ کو فوت ہوئے۔ (تذکرہ ص۷۵۶ طبع سوئم) اس حساب سے مرزا قادیانی کی عمر ۶۵ سال سے متجاوز نہیں ہوئی۔
۱؎ ایسا اس لئے لکھا گیا ہے کہ مرزا قادیانی نے خود اپنے قلم سے اپنی جو تاریخ پیدائش (کتاب البریہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷) نامی کتاب میں ۱۸۴۰ء لکھی ہے۔ مرزائی اس کو نہیں مانتے بلکہ اپنی طرف سے قیاس آرائیاں کرکے اپنے جھوٹے نبی کی جھوٹی تاریخ پیدائش گھڑتے ہیں۔ لہٰذا مولانا امر تسریؒ نے مرزا ہی کی دوسری کتاب کے حوالے سے ۱۸۴۵ ء تاریخ پیدائش لکھی ہے۔ شاہ عالم۔