اعذار خمسہ
عذر اوّل
مولوی ثناء اﷲ صاحب نے اس دعا کو منظورہی نہیں کیا، چنانچہ اخبار اہلحدیث ۲۶؍اپریل ۱۹۰۷ء میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ: ’’یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں نہ کوئی دانا اسے منظور کرسکتا ہے۔‘‘
جواب (۱)… اشتہار مذکورہ سے صاف ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی بحیثیت مظلوم کے دعا کررہے ہیں ان کے الفاظ ہیں۔ ’’میں ان کے ہاتھوں سے بہت ستایا گیا۔‘‘ پس کیا مظلوم کی دعا کی قبولیت کے لئے ظالم کی رضا بھی شرط ہے؟ کیا پیغمبر صادق احمد مجتبیٰ محمد مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بددعاء ابو جہل وغیرہ کے لئے فرمائی تھی۔ اللّٰہم علیک بابی جہل بن ھشام…الخ سے ابو جہل وغیرہ نے منظور کرلیا تھا؟ کیا موسیٰ علیہ السلام نے فرعونیوں کے حق میں جو بددعاء کی تھی۔ ’’ربنا اطمس علیٰ اموالہم واشدد علیٰ قلوبہم (ہود:۸۸)‘‘ اسے فرعون اور اس کے اتباع نے منظور کرلیا تھا۔ کیا نوح علیہ السلام نے جو دعا مانگی تھی۔ ’’رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا(نوح:۲۶)‘‘ اس دعا کے لئے کفار نے منظوری دے دی تھی؟ ہر گز نہیں معلوم ہوا کہ پیغمبر کی دعا کی قبولیت اس کے دشمن کی منظوری پر موقوف نہیں ہوتی اور نہ آج تک کوئی اس کا قائل ہوا۔
یہ تیرے زمانہ میں دستور نکلا
۲… خود مرزا قادیانی نے اپنی دعا مولانا ثناء اﷲ صاحب کی منظوری پر موقوف نہیں رکھی، بلکہ اپنے اشتہار میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ: ’’بالآخر مولوی قادیانی سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو چاہیں اس کے نیچے لکھ دیں۔ اب فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
نیز اشتہار کے اوپر جو قرآن مجید کی آیت لکھی ہے ’’ولیستنبئونک احق ہو قل ای وربی انہ لحق (یونس:۵۳)‘‘ اس سے دعائے مرزا قادیانی کا فیصلہ کن ہونا اور خدا کی طرف سے حق ہونا صاف ظاہر ہے۔ ترجمہ آیت کا یہ ہے ’’لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ آیا یہ بات حق ہے؟ کہہ دے کہ قسم میرے رب کی ضرور ضرور وہ حق ہے۔‘‘ اسی طرح اشتہار کے آخرمیں حضرت شعیب والی دعا لکھی ہے۔ ’’ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر