پیش گوئی متعلقہ ڈپٹی عبداللہ آتھم
الہام مندرجہ عنوان کا شان نزول بھی البشریٰ جلد دوم حصہ اول ص۳۴ سے نقل کرتے ہیں تاکہ مرزائیوں کو چوں وچرا کا موقع نہ ملے۔
’’اس الہام کی مفصل تشریح حضرت مسیح موعود کی مختلف کتب مثلاً جنگ مقدس انجام آتھم انوار اسلام سے مل سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ اہل اسلام اور نصاریٰ کے درمیان تحقیق حق کے لئے امر تسر میں ایک مباحثہ قرار پایا۔ ۲۲؍مئی۱۸۹۳ء سے ۵؍جون۱۸۹۳ء تک رہا جس میں اہل اسلام کی طرف سے حضرت مسیح موعود اور نصاریٰ کی طرف سے ڈپٹی عبداللہ آتھم پنشنر مباحث قرار پائے تھے۔ آخیر دن حضرت مسیح موعود نے تقریباً سوا دس کے بجے کے عین مباحثے میں یہ کلام خدا کا سنایا اور فرمایا کہ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے تو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے۔‘‘ (البشریٰ ص۳۴)
الہام کی عبارت ملاحظہ ہو جو البشریٰ کے اسی صفحہ پر شان نزول سے پہلے مرقوم ہے۔
’’اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کررہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثے کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشین گوئی ظہور میں آئے گی بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے۔ (البشریٰ ص۳۴)
پیش گوئی مذکورہ کی تشریح بھی مرزا قادیانی کے الفاظ میں سنئے: ’’میں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ معمولی بحثیں تو اور لوگ بھی کرتے ہیں اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کے لئے تھا میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدائے تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دی جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا……زمین وآسماں ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔ ‘‘ (جنگ مقدس ص۲۱۰، خ۲۹۲ ج۶)