تعلیم دے رہا ہے۔‘‘ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکم پیچھے ملا اور تعمیل پہلے ہوگئی۔ لانہ لا یقول بذلک الا من سفہ نفسہ
۴… ہوسکتا ہے کہ مرزا قادیانی کو تحریک الٰہی کا بھی علم ہوچکا ہو۔ لیکن انہوں نے اس تحریری معاہدہ کی وجہ سے درج اشتہار نہ کیا ہو جسے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کی عدالت میں ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء کو بایں اقرار لکھا تھا کہ ’’میں کسی چیز کو الہام جتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہوں گا…الخ‘‘ پھر بعد میں اصل حقیقت ظاہر کردی کہ ثناء اﷲ کے متعلق رات کو الہام ہوا اجیب دعوۃ الداع (بدر ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ) لیکن یہاں اشتہار ۱۵؍اپریل کا ذکر نہیں کیا۔ صرف فقرہ جو کچھ لکھاگیا اس پر ہی اکتفاء کی… اشتہار مذکور کا فقرہ پیشینگوئی نہیں۔ مرزا قادیانی کی ایک دوسری تصریفح کی خلاف ہے۔ مرزا قادیانی نے ڈپٹی آتھم کے لیء جو دعا کی تھی جسے (جنگ مقدس کے ص۱۸۸، جنگ مقدمہ ۲۰۹، خزائن ج۶ ص۲۹۱) پر یوں لکھا۔
’’میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعاکی ہے۔‘‘ اسی دعا کو آگے چل کر پیشینگوئی سے تعبیر کیا اور لکھا۔ ’’اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلی۔‘‘ پس جیسے آتھم کے لئے بددعا پیشین گوئی تھی مولانا ثناء اﷲ صاحب کے لئے بھی پیشین گوئی ہے اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی واحد ہے۔ ۱۵؍ماہ کی میعاد مقرر میں آتھم بھی نہیں مرا۔ مرزا قادیانی کی زندگی میں مولانا امر تسری بھی نہیں مرے۔ فنعم الوفاف وبذا الاتفاق۔
چوتھا عذر
قادیانی اور لاہوری پارٹی کہتی ہے کہ ۱۵؍اپریل کے اشتہار کی دعا مباہلہ ہے۔ مرزا قادیانی نے مولوی ثناء اﷲ صاحب کو کتاب انجام آتھم میں بشمول دیگر علماء دعوت مباہلہ دی تھی اور مولوی ثناء اﷲ صاحب نے خود بھی اس کو مباہلہ تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ مرقع قادیانی ماہ جون ۱۹۰۸ء کے ص۱۸ پر لکھتے ہیں۔ قادیانی کرشن نے ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو میرے ساتھ مباہلہ کا اشتہار شائع کیا تھا۔‘‘ چونکہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے مقابل میں نہ دعا کی نہ مرزا قادیانی کی دعا پر آمین کہی بلکہ انکار کردیا۔ اس لئے مباہلہ منعقد نہیں ہوا۔ کیونکہ مباہلہ جانبین سے ہوتا ہے۔
جواب:۱… اشتہار مذکور ایک بار پھر پڑھ جائیے۔ سارے اشتہار میں کہیں بھی مباہلہ کا لفظ نہیں آیا ہے۔
۲… پرچہ مرقع قادیانی میں مولانا امرتسری نے آگے چل کر یوں لکھا ہے۔ مرزا قادیانی کو میرے حق میں دعا کئے ہوئے۔ (جس کو وہ اور ان کے دام افتادہ مباہلہ کے نام سے موسوم کرتے