سطریں۔ یعنی رسالہ ’’جواب دعوت‘‘ کی ۷۳۰ سطروں میں سے صرف ۶۵ سطروں کے جواب دینے کے مجاہد صاحب نے کوشش کی ہے اور وہ جواب بھی کیا ہے کہ منہ چڑھایا ہے اس جواب کے اکثر حصوں کی تردید ہمارے اسی رسالہ میں ہوچکی ہے۔ رسالہ ’’جواب دعوت‘‘ کے باقی ۶۶۵ سطروں کا جواب مجاہد کے ذمہ ہنوز جوں کا توں باقی ہے۔ یوں سمجھئے کہ مجاہد صاحب نے رسالہ جواب دعوت کے گیارہ حصوں میں سے صرف ایک حصہ کے جواب دینے کی سعی کی ہے۔ باقی دس حصوں کے جواب سے عاجز رہ گئے یا تسلیم کرلیا ہے۔ اس لئے ہم کو کو ئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کے ٹریکٹ نمبر۳ کے جواب میں کوئی علیحدہ کتاب لکھیں۔ تاہم اگر دوستوں نے ضرورت سمجھی اور مسلمانوں کا اصرار ہوا تو چند صحبتوں میں اس کا مکمل دندان شکن جواب تحریر کردیں گے۔ انشاء اللہ العزیز! کیونکہ ؎
ظفر نصیب میں ہٹتے نہیں ہیں دشمن سے
ہمارا ہاتھ ہے لائق کڑی کمان کے لئے
مناظر ہیں نہیں میرے رو برویہ تاب
کہ لب ہلا بھی سکے غیر کچھ بیان کے لئے
یہ سب فضل ہے اس خالق دو عالم کا
کہ مثل شیر ہیں ہم دفع دشمناں کے لئے
تمت الرسالۃ
قادیانی ٹریکٹ نمبر۴ کا جواب اور اس کی حقیقت
خلیفہ قادیان نے ماہ نومبر ۱۹۳۲ء میں ۳۲ صفحوں کا ایک رسالہ شائع کیا تھا جس کا نام ہے۔ ’’سرزمین کابل میں ایک تازہ نشان کا ظہور‘‘ مجاہد صاحب نے کمال جدوجہد سے چھ صفحوں کا اضافہ کرکے اسی رسالہ کو بعینہا بنارس میں طبع کراکے شائع کردیا اور اس کو ’’سلسلہ ظہور امام کا ٹریکٹ نمبر۴‘‘ بنا دیا۔ یہ ہے اس ٹریکٹ کی حقیقت۔
ٹائٹل پیج کے دوسرے صفحہ پر مجاہد صاحب نے ہمارے ٹریکٹ نمبر۷ ’’معیار نبوت‘‘ کے جواب دینے کی سعی لا حاصل کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’پیغمبروں کی پیشین گوئی کے حرف بحرف پورا ہونے کی شرط محض غلط ہے۔‘‘ یہ تو مجاہد صاحب بلکہ ہر مرزائی کی جبلی عادت ہوگئی ہے کہ جو امور نص قرآن وحدیث سے ثابت ہو وہ سب ان کے نزدیک’’ غلط‘‘ ہوتے ہیں۔ صحیح وہی ہوتا ہے جو یہ لوگ کہیں۔ تاکہ مرزا قادیانی کی نبوت کاذبہ کسی طرح سچی ہوجائے۔ خواہ سچے پیغمبر نعوذ باللہ