ان ہی جرموں کے ساتھ آیا ہوں جن کے ساتھ میں داخل ہوا تھا اور مجھ کو اس میں دوبارہ داخل ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے۔ میں مہاتما کے پروگرام بلاتشدد وعدم تعاون اور ہندو مسلم اتحاد پر قائم ہوں۔
ایک عمدہ ثبات
مولانا محمد علی رہا کردئیے گئے اور ان کی پہلی پبلک تقریر ان کے شایان شان تھی۔ مہاتما گاندھی اور اس کے سیاسی طریقوں کے بے حد احترام میں علی برادرز نے ایک ایسی مثال قائم کی ہے کہ جی چاہتا ہے۔ مہاتما کے ہندو ہم وطن بھی نقل کرنے کی طرف توجہ کریں۔ یہ امر کہ ہندوستان کو موجودہ سیاسی تقسیم کے تحت مہذب شہریوں کے اصلی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ محمد علی کے اس جملہ میں کہ میں ابھی ایک چھوٹی جیل سے بڑی جیل میں نکل آیا ہوں۔ بہت اثرپذیر سے ادا کیا گیا ہے۔ یہ اصل وقت تھا کہ کوئی ممتاز مسلمان لیڈر ہندوستان کو آگاہ کرتا کہ نورین کے صلح نامہ نے خلافت کے مسئلہ کو کس قدر کم طے کیا ہے۔ جب تک کہ جزیرۃ العرب غیر مسلم ہاتھوں میں ہے۔ مسئلہ خلافت باقی ہے اور ایسی گورنمنٹ سے موالات نا ممکن ہے۔ جو اپنے شہریوں کی ایک بڑی اور بااثر جماعت کے گہرے مذہبی خیالات کی پرواہ نہیں کرتی۔
دی ’’انڈین نیشنلسٹ‘‘ ستمبر۱۹۲۳ء
نوٹ:مسئلہ خلافت کے متعلق ’’انڈین نیشنلسٹ کے ایماندارانہ اور دور اندیشانہ خیال کے ہم دل سے موافق ہیں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خلافت کی حقیقی حفاظت اور نیز مذہب اسلام کی صرف فاسد برٹش اثر اور سازشوں کو عرب کے تمام حصص سے ہی اٹھا دینے میں نہیں ہے بلکہ مصر اور فلسطین سے برٹش سپاہیوں کو چلتا کرنے میں بھی ہے۔ جب تک کہ یہ اہم مسئلہ بغیر حل کے باقی ہے۔ اس وقت تک ہند مصر یا باقی ماندہ مشرق اور تمام اسلامی دنیا کو نہ خوشی ہوگی۔ نہ پناہ یا امن نصیب ہوگا۔اور اس پر بھی احمدیہ ایجنٹ اندھے ہوکر بلا شرم کے انگلستان کی وفاداری کا وعظ دنیا کو کئے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی خدمت میں اپیل!
بے نیازی ہوچکی اے قوم مسلم کب تلک ہم کہیں گے حال دل اور تو یہ فرمائے گی۔ کیا؟
حضرات! آپ کو اخبارات سے معلوم ہوا ہوگا کہ حضرت مولوی محمد عبدالجبار صاحب الخیری ایم اے دہلوی نے ۱۹۱۹ء سے برلین میں علم توحید نصب کیا۔ جب کام بڑھ گیا تو انہوں نے خواجہ کمال الدین صاحب (قادیانی) سے اعانت چاہی مگر خواجہ صاحب نے ان کو جواب تک نہ دیا۔