’’حضرت اقدس مسیح موعود نے مولوی ثناء اﷲ صاحب کے ساتھ آخری فیصیلہ کے عنوان کا ایک اشتہار دے دیا جس میں محض دعا کے طور سے خدا فیصلہ چاہا گیا ہے نہ کہ مباہلہ کیا گیا ہے۔‘‘ (اخبار بدر ۲۲؍اگست ۰۷ء ص۸ کالم اوّل، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۶)
۶… اس وجہ سے خلیفہ محمود نے اپنی خلافت کے بعد تشحیذ الاذہان میں صاف صاف لکھ دیا۔ اس دعا کو جو حضرت صاحب نے شائع کی تھی مباہلہ قرار دینا افترا نہیں تو اور کیا ہے؟
اب کہاں ہیں لاہوری ٹریکٹ نویس! مرقومہ بالاتحریروں کو آنکھیں کھول کر پڑھیں۔
نوٹ: ٹریکٹ مذکور کے ص۸ پر ایک نوٹ دیاگیا ہے کہ:
’’مولوی ثناء اﷲ صاحب اور اس کے ہم نوا کبھی اس آخری فیصلہ کو مباہلہ کہتے ہیں کبھی دعا اور کبھی پیشین گوئی۔‘‘ ہماری اوپر کی تحریر میں پڑھ کر انصاف کیجئے کہ خود مرزا قادیانی اپنی دعا کو کبھی مباہلہ کہتے ہیں کبھی دعا اور کبھی پیشین گوئی۔ نہ کہ مولانا ثناء اﷲ صاحب اور ان کے ہمنوا۔ کونوا قوامین اﷲ شہداء بالقسط
پانچواں عذر
’’جب تمام عذروں کا مرزائی مسلمات سے مسکت جواب دے دیا جاتا ہے تو آخر میں ایک دھیمی سی آواز کانوں میں یہ آتی ہے کہ کچھ بھی کہو مولوی ثناء اﷲ صاحب خوف زدہ تو ضرورہی ہوگئے تھے۔‘‘
جواب… دریں چہ شک؟ جب ہی تو مولانا ثناء اﷲ صاحب نے اخبار اہلحدیث کو مرزائی مشن کی تردید کے لئے کافی نہ جان کر یکم جون ۱۹۰۷ء سے ایک الگ پرچہ ماہوار ’’مرقع قادیانی‘‘ کے نام سے جاری کردیا تھا جو مرزا قادیانی کی موت کے بعد تک جاری رہا اور اس پرچہ میں بڑے زوروشور سے مرزا قادیانی کے جوابات شائع ہوتے رہے اگر اسی کا نام ’’خوف‘‘ ہے تو ہم بھی صاد کرتے ہیں۔
خلاصہ مرام اینکہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کے آخری فیصلہ دئے اشتہار کی بابت جتنے عذر اور بہانے کیء جاتے ہیں وہ پادر ہوا ہیں۔ مرزا قادیانی کی دعا قبول ہوچکی تھی اور مئی ۱۹۰۸ء میں دنیانے نتیجہ دعا مشاہدہ بھی کرلیا جائے ۔ ولنعم ما قیل
گفت میرد آنکہ کاذب پیشتر
درکذب کامل بود اول مردہ شد
۱۸؍جمادی الاخریٰ ۱۳۵۲ھ، مطابق۹؍اکتوبر ۱۹۳۳ء