پڑھو۔ اللہ ایسے لوگ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ جو اس کے نہ ماننے والوں سے علیحدہ ہوں۔ پھر کیوں عمداً ان لوگوں سے ملو جن سے وہ تم کو الگ کرنا چاہتا ہے۔‘‘
جبکہ ایک بڑی جماعت مختلف ملکوں اور پیشوں کے مسلمانوں کے برلین میں امن اور محبت کی زندگی بسر کررہی تھی تو بدقسمتی سے صرف احمدیوں کی کارروائیوں اور سازشوں کی بدولت پبلک کو مسلمانوں میں اختلافات کے سننے کا موقع ملا وہ وحشیانہ اور برا سلوک جو کچھ احمدیوں نے ایک ایسے مصری کے ساتھ جس کو دعوت دی تھی کیا نہایت افسوس ناک ہے۔ ایسے لوگوں نے اس کو دھکے دئیے جو بزبان خود مذاہب امن ورواداری کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں۔ نام نہاد مسجد کے موقع پر احمدیہ مشن کی اول اشاعت کی یہ بہت اچھی ابتداء تھی۔ آخر میں جماعت اسلامیہ جرمنوں کی اس مہمان نوازی پر جوانہوں نے برتی شکریہ ادا کرتی ہے اور سب کو یقین دلاتی ہے۔ کہ ان کو کبھی یہ محسوس کرنے کا موقع نہ ملے گا کہ اس مہمان نوازی سے بے جا فائدہ اٹھایا گیا۔
احمدیوں کی وفاداری انگلستان کے ساتھ انہی کی الفاظ میں
ماخوذ از پمفلٹ مسمیٰ بہ ’’اے پریذیڈنٹ ٹوہز رائل ہائینس دی پرنس آف ویلز فرام احمدیہ کمیونٹی کنٹریبیونڈ ٹوبائی ۵۲۲۰۸ ممبرز آف دی کمیونٹی‘‘
دوسرا ایڈیشن…جولائی ۱۹۲۲ء
طبع کردہ این مکرجی بی اے آرٹ پریس، آئی ویلنگٹن اسکوائر۔ کلکتہ
۱… ہم نمائندگان جماعت احمدیہ نہایت ادب سے حضور والا کی ہندوستان میں تشریف آوری پر حضور والا کی خدمت میں تہ دل سے خیر مقدم پیش کرتے ہیں۔ حضور والا ہم کو اس خلق کے اظہار کے لئے جو قلبی طور پر ہم آپ کے شاہی خاندان کے ساتھ رکھتے ہیں۔ الفاظ نہیں ملتے۔ لیکن ہم حضور والا کو یقین دلاتے ہیں کہ جب کبھی شہنشاہ کو ہماری خدمات کی ضرورت ہوگی تو حضور والا ہم کو بلا امید کسی انعام کے اپنی جانیں اور مال تک شاہی حکم پر قربان کرنے کے لئے تیار پائیں گے۔
۲… حضور والا! بوجہ ہمارے ان خیالات کے ہمارے ہم وطن ہم کو اپنے ملک کا غدار کہتے ہیں اور ہم کو خوشامدی سمجھتے ہیں۔ بعض ہم کو کوتاہ اندیش اور زمانہ ساز کہتے ہیں۔ لیکن اے عالی جاہ شہزادے! ہم لوگوں کی خاطر خدا کو نہیں چھوڑ سکتے۔