۱… وہ نہ صرف مسیح موعود مہدی اور اوتار کرشن ہی تھا بلکہ خدا کا ایک آزاد نبی رسول تھا جس میں تمام انبیاء کی صفات مجتمع تھیں۔ اس طرح اس نے اپنی شخصیت کو قائم کرکے تعلیم دی۔
۲… کہ حکومت انگلشیہ ایک برکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور اس کی نبوت کی خاص علامت ہے۔ اس کی تعلیم کا بنیادی اصول گورنمنٹ انگریزی کے احکام کی پوری پوری اطاعت ہے۔ انگریزوں کے خلاف ہر قسم کی تحریکیں۔ جھگڑے، سڈیشن، ایجی ٹیشن، خدائی الہام کے ذریعہ سے ممنوع ہیں۔ اس معاملہ کو جماعت (احمدیہ) نے پرنس آف ویلز کے ایڈریس خبر مقدم میں خاص زور سے پیش کیا ہے کہ باوجود ان کے ہم وطنوں کے زور ڈالنے کے دوران جنگ اور بعد جنگ کے سخت زمانہ میں بال برابر بھی انگریزوں کی وفاداری سے نہیں ڈگمگائے۔ انہوں نے سخت سے سخت تکالیف برداشت کیں۔ مگر خدا کے حکم کی نافرمانی نہ کی۔ سالہا سال کے لئے انگریزی حکومت کو ہندوستان میں مستحکم (قیام پذیر) کرنے کے لئے اس نے اپنا عقیدہ جہاد (جنگ مذہبی) کے خلاف تقریر تحریر سے مخالفت کی۔
اس کی ان تعلیمات نے خاص طور سے انگریزوں کی نظر میں وقعت حاصل کی۔ اس کے پاس بہت سے خطوط خوشنودی کے اور اس کی نبوت کے اسناد پہنچے۔ سرحد افغانستان کے قسمت پشاور کے ایک کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ سرفریڈرک کننگہم اس کی تعلیم کی توجیہات کو نہایت روشن توجیہات اسلامی خیال کرتا ہے اور زور دیتا ہے اس کی تصانیف اور فتویٰ مخالف جہاد سرحدی علاقہ جات میں بکثرت تقسیم کئے جائیں تاکہ مجاہدین کے پے درپے حملوں اور جہاد سے خلاصی ہو۔ یہی اس کی تعلیمات کا مغز ہے۔ اس صورت میں اس نے اس کی جماعت نے گورنمنٹ کی رہنمائی اور پوری حمایت پر ہمیشہ بھروسہ کیا۔
۳…فرقہ کی مختلف پارٹیاں
تحریک کے شروع میں اس کی تعلیمات کو مقدس قو ت دینے کے لئے اس کی شخصیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔ بحیثیت مسیح موعود مہدی اور اوتار کرشن یقینا یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس کے کئی معجزے بھی ہیں۔ اس کو بطور اللہ کے رسول کے ماننا تھا۔ جس نے اس کو ایسا نہ مانا وہ کافر تھا۔ جو لوگ احمدی ہوگئے تھے ان کو غیر احمدیوں سے قطع تعلقات ضروری تھا۔ مسلمانوں کے رسومات تجہیز وتکفین میں احمدیوں کو شرکت کی اجازت نہ تھی۔ کیونکہ احمد نے کہا کہ ’’وہ ایک کافر کی اللہ سے سفارش کس طرح کر سکے گا۔‘‘ ہرمال کے گاہگ ہوتے ہیں تو اس کو بھی خصوصاً طبقہ ادنیٰ میں اور ان