حالت سے زیادہ مستحق تخیل ہو۔ قرآن ہم کو تعلیم دیتا ہے۔ ’’جو تم کو ایذاء پہنچائے تم کو اس کی مخالفت کرنے کی اجازت ہے۔‘‘
جماعت اسلامیہ برلین کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ مقامی مطابع کا ایک حصہ سیاسی وجوہات سے مسلمانوں کو دو مختلف گروہوں میں منقسم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان میں سے ایک کا وہ رفقائے انگلستان اور دوسرے کا دشمن انگلستان نام رکھتا ہے۔ در حقیقت تمام مسلمان انگلستان سے بالاتفاق متنفر ہیں۔ کیونکہ وہ اس کو اسلام اور تمام ایشیاء کے لئے عذاب تصور کرتے ہیں اور فرقہ احمدیہ کو سچے مسلمان تو درکنار مسلمان ہی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر منصور ایم رفعت…برلین شلونے برگ۔ ۱۵؍اگست ۱۹۲۳ء
نوٹ: میں تعمیر مساجد یا تعمیر گرجا کا مخالف نہیں ہوں۔ جب کبھی جائز ہو۔ برخلاف اس کے میرا اس پر پکا اعتقاد ہے کہ نبی نوع انسان کی سچی نجات صرف مذہبی اصولوں پر سختی سے پابندی کرنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔
بہرحال یہ امید ہوسکتی ہے کہ تمام سمجھ دار مردوعورت اس گروہ کو لعنت ملامت کرنے میں ہمارے ہم نواہوں گے جو دنیوی اور بے کار وجوہات کے لئے ایسے مقدس عبادت گاہوں کا نام بدنام کرتے ہیں تاکہ ہماری توجہ ہمارے مظلوم ممالک کی نجات اور خدائے بزرگ وبرتر کی عبادت سے ہٹا دیں۔
پروفیسر جبار خیری سے ملاقات
اپنے بیانات میں زیادہ واقعات درج کرنے اور پر اثر کرنے کے لئے میں جماعت اسلامیہ برلین کے امام پروفیسر جبار خیری سے ملا جو اسلامی علوم سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے ملک ہندوستان کی حالت کو خوب جانتے ہیں۔ میں نے ان سے بہت سے اہم سوالات متعلق بنیاد فرقہ احمدیہ کے کئے اور مجھ کو بڑی خوشی ہے کہ حسب ذیل نہایت دلچسپ مواد مجھ کو حاصل ہوا۔ فرقہ احمدیہ کے دونوں پارٹیوں کے متعلق جو عنقریب برلین میں مساجد بنانے کا ارادہ کررہے ہیں۔ صاف صاف اور مختصر جواب دینا آسان کام نہیں ہے۔ لیکن چونکہ آپ مجھ سے اس معاملہ پر روشنی ڈالنے کے لئے مصر ہیں۔ میں بالااختصار بیان کرتا ہوں۔
۱…ابتداء فرقہ
یہ ایک عجیب بات ہے کہ فرقہ احمدیہ کی خاص کارروائی کو ہند میں لارڈ کرزن کے عہد