اس عبارت کا مطلب صاف ہے کہ میری نبوت کا انکار نہ کرو کیونکہ میں واقع میں نبی ہوں۔ ناظرین چونکہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم تھا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بہت سے مدعی نبوت ہوں گے۔ چنانچہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد قریب تیس کے دجال کذاب آئیں گے اور ہر ایک مدعی نبوت ہوگا۔ لہٰذا اس نے پیشتر ہی سے نبوت پر مہر لگا دی تھی۔ اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خاتم النّبیین کے خلعت سے سرفراز فرمایا تھا اور حضرت اقدس (روحی فداہ) نے بھی ہر قسم کی نبوت کی نفی کردی تھی کہ لا نبوۃ بعدی یعنی میرے بعد کسی قسم کی نبوت نہیں ہوسکتی۔
پس بعض دجالوں نے معنی تغیر کیا اور بعض نے لانبی کے بعد الا ان یشاء ﷲ بڑھا دیا۔ گو بعض بے دینوں نے تو اس کو بھی مان لیا مگر اکثر نفی کرتے رہے مرزا قادیانی نے روایت کی بھی ضرورت نہ سمجھی بلکہ اپنی طرف سے الا بروزی وظلی بڑھا دیا خوش اعتقادوں نے اسے بھی مان لیا۔ در حقیقت تو مرزا قادیانی نبوت مستقلہ کے مدعی ہیں جیسا کہ عبارت مندرجہ بالا ودیگر قرائن سے معلوم ہوتا ہے مگر بچائو کے لئے ہے۔ آڑ پکڑلی کہ ضرورت کے وقت جان چھڑا لینے کا موقع مل جائے۔ اس لئے اشتہار کے بعد کی عبارت میں ظلی اور بروزی کا بھی ذکر کردیا ہے۔ جس کو بوجہ طوالت ہم نے چھوڑ دیا۔ ملاحظہ ہوا افادت الافہام۔ تاریخ مرزا۔
انبیاء علیہم السلام پر فضیلت
مرزا قادیانی کے مزاج میں تعلّی تو ابتداء سے تھی۔ نبی بننے کے بعد انہوں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں نبوت میں بھی کسی سے کم درجہ پر رہوں سو انہوں نے کہہ دیا کہ: ’’میں بعض نبیوں سے افضل ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ص۲۷۸ ج۳) بعض کا لفظ بھی میں نے معلوم کن مصلحتوں سے کہہ دیا اور نہ ان کے خیالات کو تواہل بصیرت خوب جانتے ہیں۔
معجزات سے انکار
اور چونکہ (مرزاقادیانی) مسیح موعود تو اپنے آپ کو ظاہر کرچکے تھے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبینا وعلیہ السلام پر اپنی فضیلت ظاہر کرنے میں بڑا حصہ لیا اس میں ایک دقت سب سے بڑی یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات قرآن وحدیث سے روز روشن کی طرح ظاہر وباہر تھے اور مرزا قادیانی (سوائے الہام گھڑ لینے کے لئے کہ احمق سے احمق بھی ایک دن میں ہزاروں کو گھڑ