پہلے ہزاکسیلنی غلام صدیق خاں سفیر حکومت افغانستان نے مذکورہ بالا آرٹیکل کے مضمون کی پوری طرح تحقیقات فرمانے کی کوئی تکلیف گوارا فرمائی؟
یہ بے انتہا افسوس ناک ہے کہ ان واقعات اور حالات کی موجودگی میں آپ نے ایک مسلم حکومت کے نہایت مقتدر نمائندے کی حیثیت سے ایسے موقع پر بخوشی حصہ لیا۔ اب اگر ان امور سے عدم علم کا اظہار فرمائیں تو یہ اور بھی ہیبت ناک ہے اور اگر آپ نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو یہ بد سے بدتر ہے۔
مزید برآں آ پ کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ نہ تو سفیرایران نہ قائم مقام حکومت ترکی نہ جماعت اسلامیہ اور نہ اعلیٰ طبقہ کے تعلیم یافتہ جرمن گئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے بیان کی صداقت نے کہ آپ براہ راست اورخفیہ طور سے احمدی ایجنٹوں کی مدد کررہے ہیں۔ آپ کو بالکل سٹ پٹا دیا اور یہ کہ آپ بے قصور لوگوں پر جھوٹے الزام عائد کرنا چاہتے ہیں۔اب میں صرف آپ کی رسم کے وقت موجودگی اور اس تقریر ہی کو جو آپ نے کی آپ کی مدد دینے کے لئے پیش نہ کروں گا۔ بلکہ اور دوسرے اہم واقعات کو جن کو میں اپنی کھلی چٹھی میں تحریر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
جناب من! کیا آپ ان احمدی ایجنٹوں کو فیاضی سے روپیہ کی مدد نہیں کررہے ہیں اور کیا آپ اپنے سفارت خانہ پر ان کی شاہانہ طریق پر تواضع (مہمانداری) نہیں کررہے؟
اسلامی معاملات سے بالکل لاعلمی
اب اگر ہم سوال کے مذہبی پہلو کا جواب دیں تو یہ قابل افسوس امر ہے کہ آپ بالکل ہی کھوئے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں جو غایت درجہ کی لاعلمی جو آپ نے ظاہر کی ہے۔ وہ لاثانی ہے۔ آپ کی حیثیت کے لوگوں کے لئے جو مسلم گورنمنٹ کے قائم مقام بنائے جاتے ہیں۔ علم سے اس قسم کی بالکل بے حرمتی نہایت تعجب خیز ہے۔مختصر یہ کہ جو شیخی آپ بگھار رہے ہیں۔ اس کا ایک لفظ بھی صحیح نہیں ہے۔ آپ نے اپنی چٹھی میں تحریر کیا ہے:
’’ہمارے مقدس مذہب کے قوانین کے موجب مسجد ایک عمارت ہے اور سچے ایمانداروں کے لئے خدا کی عبادت کرنے کی ایک جگہ۔ اب بانی مسجد مسلمان ہو یا غیر مسلم یہ امر مسجد کی تقدیس اور پاکی کو کم نہیں کرتا۔ ہمارے قرآن مجید نے ایسا حکم نہیں دیا کہ کسی کافر کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنا ناجائز ہے یا اس کو مقدس نہ سمجھنا چاہئے۔ برخلاف اس کے عالمان قرآن کے نزدیک ایسے خیال ظاہر کرنے والے قابل نفرت ہیں۔ پھر کس طرح ایک مسلمان کی حیثیت میں مسجد کی رسم بنیادی میں میری موجودگی میں جس کو خالص اسلامی نکتہ نظر سے سمجھنا چاہئے۔ آپ