سب رسولوں کے ازواج وذریت والے ہونے کا غلط ہوگیا؟ والعیاذ باﷲ، فما ہوجوابکم ہوجوابنا‘ فافہم! تعجب تو یہ ہے کہ آیت مذکورہ وفات مسیح کی دلیل کیونکر بن گئی؟
سوال اگر یہ ہے کہ سب رسول کھایا پیا کرتے تھے تو آسمان پر حضرت عیسیٰ کہاں سے کھاتے پیتے ہوں گے؟ تو اس کے کئی جواب ہیں۔
۱… رزق تو سب کو آسمان سے ہی ملتا ہے پڑھو آیت: ’’وفی السماء رزقکم (ذاریات:۲۲)‘‘ یعنی تمہارا رزق آسمان پر ہے۔
۲… جنت سے ان کو غذا دی جاتی ہوگی کیونکہ جنت بھی تو آسمان پر ہی ہے۔ ارشاد ہے وعند ہا جنۃ الماویٰ (نجم:۱۵) یعنی آسمان کے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہی جنت ہے۔
۳… اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ پیدائش کی رو سے حضرت عیسیٰ کی مشابہت فرشتوں سے ہے پس جو غذا فرشتوں کی آسمان پر ہے وہی حضرت عیسیٰ کی بھی وہاں ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ یجزی اہل السماء من التسبیح والتقدیس (مشکوٰۃ ص۴۶۹) یعنی آسمان والوں کو تسبیح وتقدیس (غذا کے بدلے) کفایت کرتی ہے۔ فتفکر
۴… ’’ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (مائدہ:۷۵)‘‘ مریم کا بیٹا مسیح ایک رسول ہے۔ جس قدر رسول اس سے پہلے تھے وہ سب مر چکے (ص۷) اس آیت پر بحث اوپر گزر چکی ہے۔ کہ خلت کا ترجمہ ’’مرچکے‘‘ غلط ہے۔ نیز الرسل کا ترجمہ ’’جس قدر رسول‘‘‘ صحیح نہیں فانظر ثمہ!
چوتھی آیت
’’والذین یدعون من دون اﷲ (الیٰ) اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون (نحل:۲۰)‘‘ یعنی جن لوگوں کی عبادت اﷲ کے سوا کی جاتی ہے (تا) مرچکے ہیں زندہ بھی نہیں ہے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے… مسیح کی روئے زمین پرستش ہوتی ہے اور اﷲ فرماتا ہے کہ ایسے تمام معبود مرچکے ہیں (ص۸) اس ترجمہ میں کئی غلطیاں ہیں۔
۱… الذین کا ترجمہ ’’جن لوگوں‘‘ کی صحیح نہیں کیونکہ الذین سے مراد اصنام (بت) ہیں۔ (جلالین وخازن ومعالم وغیرہ) صحیح ترجمہ یوں ہے۔ ’’اور جن کو پکارتے ہیں۔‘‘ کفار مکہ بت پرستی کرتے تھے نہ انسان پرستی۔ چنانچہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بت جو فتح مکہ کے دن توڑے گئے اس پر