ہوکر۔ لہٰذا آنحضرتﷺ کے وصف رسالت الیٰ کافۃ الخلق میں شریک نہیں ہوں گے۔ اور حدیث مسلم غلط نہیں ہوگی۔ بلکہ اپنی جگہ پر بحال رہے گی۔ ولیکن ہذا آخر ما اردنا ایرادہ فی ہذہ الرسالۃ المبارکۃ النافعۃ الکاملۃ لدفع مکائد الدجاجلۃ والحمد ﷲ اولا وآخر اوظاہرا او باطنا
بہ پایاں آمد ایں دفتر حکایت ہم چناں باقی
تمام شد
قادیانی دو ورقی ٹریکٹ نمبر۵ کا جواب اور اس کی حقیقت
جنرل سیکرٹری انجمن احمدیہ کلکتہ نے ۱۶؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو جلسہ اہلحدیث کلکتہ کے موقع پر ایک دو ورقہ اشتہار مرزا قادیانی کے آخری فیصلہ سے متعلق پنجاب فائن آرٹ پریس کلکتہ میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ ۔ مجاہد صاحب بھی اس وقت کلکتہ پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے اسی دو ورقہ اشتہار کو اسی پریس میں اپنے نام سے طبع کرالیا۔ کلکتہ کے اشتہار کی آخری دو سطریں ’’معزز حضرات! سے ’’والسلام‘‘ تک تواڑا دیں اور شروع میں ایک سطر کا اپنی طرف سے بطریق عنوان یوں اضافہ کردیا۔ ’’ٹریکٹ نمبر۵ ظہور امام بجواب ٹریکٹ نمبر۴ از مدن پورہ‘‘ اور اسے بنارس لاکر تقسیم کردیا۔ یہ ہے اس ٹریکٹ نام نہاد نمبر۵ کی حقیقت۔
در اصل ہمارا ٹریکٹ نمبر۴ قادیانیوں کے حق میں کچھ اسطرح کا لوہے کا چنا ثابت ہوا ہے کہ بے چاروں سے کچھ کرتے دھرتے نہیں بنتی۔ سوچتے ہیں کہ کیا جواب دیں؟ قلم اٹھاتے ہیں اور پھر رکھ دیتے ہیں جب کچھ نہیں سوجھتا تو کبھی لاہوری ٹریکٹ پر قلم سے ’’بجواب ٹریکٹ نمبر۴ انجمن اشاعت الاسلام‘‘ لکھ کر شہر میں بانٹتے ہیں اور کبھی کلکتہ کے اشتہار کو ٹریکٹ نمبر۴ کا جواب بنا دیتے ہیں‘ حالانکہ اس کلکتہ والے اشتہار میں وہی باتیں ہیں جن کے کئی کئی جوابات ہم اپنے ٹریکٹ نمبر۴ میں دے کر فارغ ہو بیٹھے ہیں۔ اس لئے مجاہد صاحب کا کلکتہ والے اشتہار کو اپنا ٹریکٹ نمبر۵ بنا دینا مشہور مثل’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کا مصداق ہے۔ اور کیوں نہ ہو معلوم ہے کہ:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
پس جب انہوں نے ہمارے ٹریکٹ نمبر۴ کے کسی بات کا جواب ہی نہیں دیا ہے تو ہم ان کا کیا جواب دیں؟ ہمارا قرضہ تو جوں کا توں مرزائیوں کے ذمہ باقی ہے۔ البتہ اس رسالہ میں ہم بعض باتوں کی مزید وضاحت کئے دیتے ہیں۔ تاکہ مرزائی پھر کبھی اس بحث میں کچھ نہ بول