ابن ماجہ اور مسند احمد)آپ دیکھتے ہیں کہ منکر کو درست کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اس کو منافقانہ عمل نہ کرنا چاہئے۔
احمدی اور خلیفہ
غالباً آپ کو علم ہوگا کہ آپ کی گورنمنٹ کا ترکی گورنمنٹ کے ساتھ دلی اتحاد ہے اور آپ کی گورنمنٹ خلیفہ کی اطاعت کرتی ہے تو افغان گورنمنٹ کے قائم مقام کا ہر قسم وفرقہ کے احمدی ایجنٹوں کی مدد کرنا جو موجودہ خلیفہ کو نہیں مانتے کس طرح ممکن ہے کیونکہ وہ اپنا خلیفہ ہی نہیں بلکہ مکہ اور مدینہ بھی الگ رکھتے ہیں۔میں ان ہی کے ایک پمفلٹ (دی اسلامک ریویو) جو ماریشسں میں طبع ہوا سے نقل کرتا ہوں:’’یہ سب جانتے ہیں کہ غیر احمدی سلاطین ترکی کو تمام عالم اسلامی کا روحانی سردار مانتے ہیں۔ لیکن احمدی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا دعویٰ خلافت جھوٹا ہے اور کسی صورت میں بھی اس کی وفاداری سے انکار کرتے ہیں۔ (از اسلامی موومنٹ احمدیہ)
الزام دہندہ کون ہے
یہ نہایت عجیب ہے کہ بذریعہ دھمکیوں کے مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھ کو آپ سے معافی مانگنی چاہئے۔ لیکن یہ ہماری دنیا پر عیاں ہے کہ آپ کو نہ صرف تمام مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہئے بلکہ اپنی گورنمنٹ سے بھی جس کی آپ نے احمدی ایجنٹوں کو جو اسلام کے پردہ میں ہمارے سب سے بہتر ایمان اور محبوب آزادی کی بربادی کے ہیبت ناک آلہ ہیں۔ براہ راست اور بالتوسط سہارا دیکر توہین کی ہے۔آخر میں آپ نے مجھ کو ہمارے مسلمان بھائیوں کے سامنے کھلم کھلا کھول کر پیش کردینے کی دھمکی دی، میں آپ کا اس شروعات کرنے پر بے حد مشکور ہوں گا۔ میں نے جو کچھ کیا ہے اس پر میرے دل اور ضمیر کو اطمینان ہے۔ ڈاکٹر منصور ایم رفعت!
احمدیوں اور ان کے حمایتوں پر ایک زور کا چانٹا
چھوٹی جیل سے بڑی جیل میں:’’میں یروداجیل کی کنجی چاہتا ہوں‘‘
مولانا محمد علی سے ملاقات کی گئی۔
’’مجھ کو کچھ کہنا نہیں ہے کیونکہ مجھ میں کوئی بات نئی نہیں ہے۔ میں حال میں ایک چھوٹی جیل سے بڑی جیل میں چھوڑا گیا ہوں۔ لیکن میں اپنی رہائی سے ذرا بھی خوش نہیں ہوں۔ کیونکہ یہاں گاندھی بھی ایک جیل میں ہیں۔ میں اس وقت تک آرام نہ کروں گا۔ جب تک مجھ کو مہاتما کے آزاد کرانے کے لئے یرودا جیل کی کنجی نہ مل جائے۔ میں جیل میں سے بلاکسی قسم کی پشیمانی کے اور