شکوہ بے جا
ہمارے فاضل مولوی کو شکایت ہے کہ ہمارا ٹریکٹ نمبر۵ ان کے پاس نہیں پہنچا، پھر اس کی تاریخ اشاعت (۱۵ جمادی الاولیٰ) بھی لکھ دی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ہمارا ٹریکٹ ان کی نظر سے گزر چکا ہے‘ کیا لطف ہے کہ ایک ہی سطر میں ٹریکٹ نمبر۸ کے نہ پہنچنے کی شکایت بھی ہے اور پہنچنے کا اقرار بھی، یہ تو اس ناقب کی مثال ہوئی جس نے مجمع کی حیرت ان لفظوں میں دور کی تھی کہ ’’گٹھری بھیتر اور میں باہر‘‘
صاف انکار نہ کر وصل سے اوشوخ مزاج
بات وہ ہو کہ نکلتے رہیں پہلو دونوں
اختلاف بیانی
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا می رود دیوار کج
حضرت مرزا قادیانی کے اقوال باہم اس قدر متضاد اور متناقض ہیں کہ بجز ’’حافظہ نباشد کے کوئی صورت تطبیق وجواب کی ممکن ہی نہیں، تو اس سنت پر عمل کرنا مرزائیو کا فرض اولین کیوں نہ ٹھہرے؟ چنانچہ مجاہد صاحب کا یہ ٹریکٹ نمبر۲ بھی اختلاف بیانیوں کا اچھا خاصہ مجموعہ ہے‘ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
تفاسیر سے متعلق
صفحہ ۱۷ کی آخری سطر میں ’’تفاسیر کی کتابوں کو غیر معتبر‘‘ قرار دیا ہے۔ ص۱۸ میں علماء کو ان لفظوں میں الزام دیا ہے۔ تفاسیر کی غیر معتبر باتوں پر دوسروں کو یقین کرلینے کی دعوت دیتے ہیں اور پھر خود ہی ص۷ میں مسلمانوں کو حضرت ابیؓ کی قرأت قبل موتہم جو انہیں ’’غیر معتبر‘‘ تفسیروں میں منقول ہے‘ قبول کرلینے کی دعوت دی ہے۔ اور قرأت شاذہ سے قرأت متواترہ کی تردید کی ہے۔ بے خبری میں۔ اپنے پیر مغان (مرزا قادیانی) کی بھی تردید کردی ہے کیونکہ مرزا قادیانی تو مفسرین کی عزت کرتے اور ان کی تفسیروں سے استناد کرتے ہیں۔ چنانچہ (تحفہ گولڑویہ ص۹۴ کے حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۴۸) میں لکھتے ہیں۔ ’’تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں…‘‘ اور مجاہد صاحب ان کو غیر معتبر بتا رہے ہیں۔
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے