حالانکہ (تذکرہ طبع سوئم ص۶۵۳) میں ہے: لنحیینک حیٰوۃ طیبۃ ثمانین حولاً او قریباً من ذالک(اور ہم تجھے پاک زندگی عطا کریں گی۔ تیری عمر اسی سال ہے یا قریب اس کے) (اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء ازالہ اوہام ص۶۳۵، خزائن ج۳ ص۴۴۳)
اور اسی البشریٰ میں ہے کہ ایک خواب میں پندرہ سال کی مزید عمر بڑھائی ہے۔ یعنی پچانوے کرلی ہے۔ (تذکرہ ص۴۹۷، طبع۳)
اب ناظرین خود انصاف کرسکتے ہیں۔ کجا اسی اور پچانوے اور کجا پینسٹھ جس کو بمشکل ۷۰کے قریب کہا جاسکتا ہے۔ معمولی اردو، فارسی، عربی، بٹالہ میں ایک شیعہ صاحب سے پڑھ کر سیالکوٹ کی کچہری میں پندرہ روپے ماہوار کے محرر ہوئے۔ وہاں بغرض حصول دنیا مختاری کا امتحان دیا۔ فیل ہوگئے۔ لیکن ابتداء سے وجاہت (حاصل کرنے) اور کسی نئے مذہب کے اختراع کرنے کا بہت خیال تھا۔
(کتاب البریہ ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۱۳ ص۱۸۰،۱۸۱، سیرت المہدی حصہ اوّل ص۳۴،۳۵)
طبیعت میں جدت تھی، اسی واسطے ابتداء سے مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے جیسا کہ ان کے اشعار سے جو اس بارے میں لکھے ہیں۔ ظاہر ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت ان کو نام آوری کا اچھا موقع مل گیا کہ آریوں اور عیسائیوں کا چرچہ تھا۔ مرزا قادیانی ان کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے اگرچہ کامیابی تو ان کے مقابل بھی نصیب نہ ہوئی۔ کیونکہ جب وہ لوگ وید سے کوئی حوالہ طلب کرتے تو مرزا قادیانی بوجہ وید نہ جاننے کے بغلیں جھانکتے تھے۔ لیکن مسلمانوں نے جب دیکھا کہ ہماری طرف سے یہ جان توڑ کوشش کررہے ہیں تو ان کے قلوب مرزا قادیانی کی طرف راغب ہوگئے۔
انہوں نے مسلمانوں کا میلان اپنی طرف دیکھ کر ایک کتاب (براہین احمدیہ علی حقیقت کتاب اﷲ والنبوۃ محمدیہ) کا اشتہار دے دیا اور مسلمانوں کو اس کی طرف مائل کرکے پیشگی قیمت ایک ایک نسخہ کی پچیس پچیس روپئے تک وصول کرکے ایک خاصی رقم جمع کرلی اور جب کتاب طبع ہوکر نکلی تو بڑا حصہ اس میں الہامات اختراعیہ کا تھا۔ عام طبقے پر اس کا اثر جو کچھ پڑا وہ پڑا لیکن علماء اس کو دیکھ کر گھبرائے ۔ حتیٰ کہ بعض نے تو کمال فراست کی وجہ سے کہہ دیا کہ یہ نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ کتاب اسی کا پیش خیمہ ہے۔ مگر چونکہ مرزا قادیانی آریوں سے اس وقت برسر