نے پہلے ہی سے یوں دی تھی: ’’ومن آیاتہ خلق السمٰوت والارض وما بث فیہما من دابۃ (شوریٰ:۲۹)‘‘ یعنی اﷲ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کی دلیلوں میں سے آسمانوں اور زمین کی خلقت اور ان دونوں میں دابہ (چلنے پھرنے والے جانداروں) کا پھیلانا ہے۔ فرشتوں کو سورہ نحل میں ان سے الگ ذکر کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’وﷲ یسجد مافی السمٰوات وما فی الارض من دابۃ والملٰئکۃ (نحل:۴۹)‘‘ یعنی اﷲ کے زیر حکم ہیں جو دابہ آسمانوں (اوپر کے کروں) میں ہیں اور جو دابہ زمین میں ہیں اور فرشتے بھی اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ پس اوپر کے کروں میں فرشتوں کے علاوہ انسانوں اور حیوانوں کا وجود ثابت ہوا جیسا کہ فلسفۂ جدیدہ نے اعلان کیا تھا۔
۳… یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش عام انسانوں کے برخلاف نفخ روح القدس (جبریل) سے ہوئی ہے۔ اس لئے آپ کی مشابہت پیدائش کے لحاظ سے فرشتوں سے ہے۔ پس آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا اور آیت مذکورہ کے حکم سے خارج ہونا آپ کے مادہ فطری اور طبعی کی وجہ سے ہے جو دوسرے انسانوں کو حاصل نہیں۔ خواہ ان کے مراتب کیسے ہی اعلیٰ کیوں نہ ہوں۔ لہٰذا آیت مذکورہ وفات مسیح کی دلیل نہیں بن سکتی۔ کما لا یخفیٰ
دوسری آیت
’’وفیہا تحیون وفیہا تموتون ومنہا تخرجون(اعراف:۲۵)‘‘ اس زمین میں تمہاری زندگی ہوگی اور اس میں تم مرو گے اور تم اسی سے نکالے جائو گے (تا) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس اٹل قانون کے خلاف کسی اور جگہ کیونکر زندہ رہ سکتے ہیں؟ (ص۵) سنئے جناب! اسی طرح حضرت عیسیٰ ز ندہ رہ سکتے ہیں جس طرح دیگر کروں کے انسان ان کروں میں زندگی گزارتے ہیں۔ کمامر اور اسی طرح زندہ رہ سکتے ہیں جس طرح فرشتے آسمانوں پر زندہ ہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مشابہت پیدائش کے لحاظ سے فرشتوں سے ہے۔ کما ذکر۔ پھر زندگی کے آخری ایام وہ اسی زمین پر گزاریں گے۔ بعدہ وہ مدینہ طیبہ میں مریں گے اور روضہ نبویہ میں دفن کئے جائیں گے۔ پھراسی روضہ سے قیامت کے دن آنحضرتﷺ کی معیّت میں اٹھیں گے۔ کما وردفی الحدیث عارضی طور سے کچھ مدت کے لئے ان کا آسمان پر چلا جانا نہ آیت مذکور کے منافی ہے نہ قانون الٰہی کے خلاف۔ انہ علی کل شیء قدیر یفعل ما یشاء