کرنے سے روکنے کے لئے جو تدابیر اختیار کی گئی ہیں وہ بالکل موزوں ہیں اور یہ کہ اس طرح جو مدد آپ گورنمنٹ کی کررہے ہیں وہ نہایت بیش بہا ہے۔
آپ کی جماعت کو بھروسہ رکھنا چاہئے کہ وہ گورنمنٹ کی پوری حفاظت حاصل کرتی رہے گی اور اس کو جب تک وہ اس حفاظت میں ہے۔ آپ کے مذہبی اور سیاسی مخالفوں سے کوئی خوف نہ کرنا چاہئے۔
افسر کمانڈنگ ان احمدیوں کی مدد حاصل کرکے بہت خوش ہوگا۔ جو لاہور رقبہ سول کے حدود کے اندر رہتے ہیں۔ اور اس کو انجمن احمدیہ لاہور کے سیکرٹری یا امیر سے مل کر نہایت خوشی ہوگی جب کبھی ان دونوں صاحبوں میں سے کسی کو اس سے ملنے آنے کا موقع ملے۔‘‘
ایک مرتبہ اور مسیح موعود کی متذکرہ بالا پیشین گوئی کی صداقت عیاں ہوتی ہے۔ موپلوں نے کھلم کھلا للکارا اور گورنمنٹ کے حکام کو چیلنج دیا اور قریب قریب کل ملیبار ایک زبردست بغاوت کے مصائب میں لوٹ رہا ہے۔ بموجب اطلاع اخبارات موپلے ہندوئوں کو ان کے زبردستی بنامسلمان رہے ہیں اور تاج کے وفادار موپلوں۱؎ اور دوسری وفادار رعایا کو ستا اور تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ ملیبار میں ہماری تعداد بہت ہی قلیل ہے پھر بھی انہوں نے اپنے فرض سے بے پرواہی نہیں تھی کہ وہ احمدیہ روایت ووفاداری گورنمنٹ پر صادق ثابت ہوئی۔ پائنیر کے نام ایک تار مورخہ۱۸؍ستمبر رقم طراز ہے۔ ’’جونہی بغاوت شروع ہوئی۔ کناہ دور کڈدالی اور کالی کٹ کے مسلمانان جماعۃ احمدیہ نے احمدیوں کی بے زوال وفاداری پر قائم رہنے کے حکام ضلع وقسمت کے پاس خطوط بھیجتے اور ہر قسم کی خدمت کے لئے جو ان سے نظام کو دوبارہ درست کرنے کے لئے مطلوب ہو خدمات پیش کیں۔‘‘
غلام فرید……(ریویو آف ریلیجن ج۲۰، ستمبر۱۹۲۱ئ)
غلام مرتضیٰ کے ذلیل حالات ز ندگی
مرزا غلام کا بدنام باپ نام نہاد مسیح موعود۔ قادیان ہند
(ماخوذ از کتاب احمد، دی مسینجر آف دی لیٹرڈیز حصہ اول، لاہور ۱۹۱۷ئ)
’’نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دربار کے زمانہ میں غلام مرتضیٰ متواتر جنگی خدمت میں لگا
۱؎ یہ ایک بالکل خاص اور مکروہ افتراء ہے اور نہایت مضحکہ انگیز کذب ہے۔ یہ تحریک موپلا بالکل غدار اور بے رحم فرنگی یعنی