اس زمانہ میں مسلمانوں کے طرز عمل کے متعلق میں نے کہا: ’’ہندوستان کا شاید ہی کوئی حصہ ہوگا جو پچھلے چند برسوں میں سیاسی ایجی ٹیشن اور سازشوں سے محفوظ رہا ہو۔ بغاوت مختلف صورتوں میں ہویدا ہوئی۔ ہرزیر اثر ضلع میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ مشرقی بنگال میں جس کے بعض حصے سیاسی بے چینی کا مرکز تھے مسلمان ہندوں سے زیادہ ہیں… پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ سازشوں، بلوئوں، ڈکیتیوں، چوریوں اور ہنگاموں میں جو پچھلے چند سالوں میں ہندوستان کے ہر حصہ میں رائج تھے۔ کسی مسلمان نے شرکت نہیں کی۔ یہ اسلام اور اس کے مقدس بانی کی وجہ ہے……کہ در حقیقت مسلمانوں کے اپنے اجنبی بادشاہ کے ساتھ قابل تحسین طرز عمل کے لئے قابل ستائش ہیں۔
عام مسلمانوں کے متعلق احمدیوں کی نواحمدیوں کو ہدایت
کیا کسی احمدی کو کسی غیر احمدی امام کے پیچھے نماز ادا کرنی جائز ہے؟
ماخوذ از سوانح مسیح موعود جو رسالہ ماہواری قادیان میں شائع ہوئے: صفحات۱۸۲،۱۸۶
۲۰؍فروری ۱۹۰۱ء کو اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیوں اپنے متبعین کو غیر احمدی امام کی اقتدأ میں نماز ادا کرنے سے منع کیا۔ مسیح موعود نے جواب دیا: ’’میرا رد کرنا گویا خدا کے احکام اور محمد رسول پاکﷺ کی ہدایات کا رد کرنا ہے۔‘‘
’’میں اس کو اپنی طرف سے نہیں کہتا میں صدق دل سے سچ سمجھ کر اظہار کرتا ہوں کہ میرا رد کرنا تمام قرآن کا انکار کرنا ہے۔ وہ (جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا۔ ) زبان سے اقرار نہ کرے لیکن اس کا عمل شاہد ہے۔ میری ایک وحی سے یہ ثابت ہوتا ہے۔:
میرے انکار سے اللہ کا انکار لازم ٹھہرتا ہے۔ اور مجھ کو مان لینا گو اللہ اور اس کی ہستی پر ایمان کا مکمل ہونا ہے۔ پھر میرے نہ ماننے سے یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کا انکار کیا۔ اور اس لئے جب کوئی شخص مجھ کو نہ ماننے کی جرأت کرے تو اس کو خوب اچھی طرح غور کرلینا چاہئے کہ وہ کس سے انکار کررہا ہے۔‘‘
’’میں دوبارہ علی الاعلان کہتا ہوں کہ میرا انکار کرنا آسان کام نہیں ہے۔ جو شخص مجھ کو