الفاتحین(اعراف:۸۹)‘‘ یہ دعا اہل حق اور اہل باطل میں فیصلہ ہوجانے کے لئے مرزا قادیانی نے تحریر فرمائی تھی پس خدا نے فیصلہ کردیا۔ مولانا ثناء اﷲ صاحب خواہ منظور کریں یا نہ کریں اور جب مولانا امر تسری (جو مرزا قادیانی کے مد مقابل اور اشد دشمن تھے) کی عدم منظوری کو اس دعا میں مطلق دخل نہیں ہے تو نائب اڈیٹر صاحب کا کچھ لکھ دینا یا حکیم محمد دین امر تسری کا اشتہار شائع کرنا اس فیصلہ الٰہی میں کیا دخل انداز ہوسکتا ہے؟
۳… اب ہم مرزا قادیانی کی تحریر سے ثابت کردیتے ہیں کہ دعائے مذکور الہامی تحریک سے کی گئی تھی اور فیصلہ اسی دعا پر موقوف تھا۔ مرزا قادیانی نے اشتہار ۱۵؍اپریل والے کے شائع کرنے کے تقریباً ڈیڑھ مہینہ بعد مولانا ثناء اﷲ صاحب کو ایک خط بھجوایا تھا اور اسے اخبار بدر ۱۳؍جون۱۹۰۷ء میں شائع بھی کرادیا تھا اس میں مرقوم تھا:
’’مشیت ایزدی نے حضرت حجۃ اﷲ (مرزا قادیانی) کے قلب میں ایک دعا کی تحریک کرکے فیصلہ کا اور طریق اختیار کیا ۔(ص۲ کالم۱)
معلوم ہوا کہ مولانا ثناء اﷲ صاحب کا اپنی عدم منظوری کا اعلان فضول ثابت ہوا۔ ان کی عدم منظوری سے دعائے مرزا منسوخ نہیں ہوئی۔ بلکہ فیصلہ کا یہ جدید طریق قائم وباقی رہا۔
ازالہ شبہ
بعض مرزائیوں نے اس پر یہ شبہ بھی وارد کیا ہے کہ مشیت رضا کو مستلزم نہیں ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کلیہ کو پیغمبروں سے بھی متعلق ماننا صحیح نہیں۔ مشیت الٰہی جو انبیاء سے متعلق ہوتی ہے وہ اس مشیت کے ہم مثل نہیں ہوتی جس کا تعلق دیگر خلائق سے ہوتا ہے۔ جس طرح انبیاء کے خواب دوسرے لوگوں کے خواب کی مثل نہیں ہوتے پڑھو آیات قرآنیہ ’’قل لوشاء اﷲ ما تلوتہ علیکم (یونس:۱۶) ولو نشاء لارینٰکہم (محمد:۳۰) لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اﷲ (فتح:۲۷)‘‘
کار پا کاں راقیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر وشیر
دوسرا عذر
اشتہار مذکور میں تو صرف دعا کا ذکر ہے قبولیت دعا کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ پس نہیں کہا جاسکتا کہ دعائے مذکور قبول بھی ہوگئی۔
جواب:۱… مرزا قادیانی کو بہت پہلے سے یہ الہام ہوچکا ہے: ’’اجیب کل دعائک