میں آپ کی تحریر متعلق ’’مصری ڈاکٹر‘‘ کی بھی مخالفت نہیں کروں گا جس کو آپ ’’سیاسی مجنوں‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اگر پسند کرتے ہیں کہ ایک شخص کو جو غیر ملکی جوئے سے اپنے ہم وطنوں کو بلا لحاظ فرقہ یا جماعت حتی الامکان نجات دلانے کی کوشش کررہا ہے۔ ’’سیاسی مجنوں‘‘ کہیں تو میں اس کو ’’مصری ڈاکٹر کے لئے سند عزت سمجھوں گا۔‘‘
کسی مسلمان یا غیر احمدی ایشیائی نے ڈاکٹر کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکالا۔ وہ سب جو اس کو پبلک کے سامنے اپنے دستاویزات پیش کرنے سے منع کرنا چاہتے تھے نہ مسلمان نہ ایشیائی۔ ان میں سے ایک مسٹر مبارک علی برلین میں فرقہ احمدیہ کے ایجنٹ کا استاد ہے۔‘‘
برلین ڈبلیو ۵۰ گیزبرگرز۔۴۰ ڈاکٹر منصور رفعت
مسجد مع انتظام ہوٹل
قیصر ڈیم پر ایک عجیب تعمیر
(لوکل انزیجر مجریہ۱۹؍جون ۱۹۲۳ئ۔ اشاعت صبح)
’’چند یوم قبل پریس میں ایک اعلان بھیجا گیا کہ قیصر ڈیم پر قریب رنگ ریلوے اسٹیشن وزلبین کے برلین کی اسلامی جماعت کے لئے ایک مسجد کا بنیادی پتھر رکھا جائے گا اور مزید برآں یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ فرقہ اصلاح اسلام کے متبعین اور سفرأبنائیں گے۔ جو اپنے آپ کو مصلح کے نام پر احمدی کہتے ہیں۔ یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ مذہبی مقصد کے ساتھ ایک سیاسی مقصد بھی تھا اور خصوصاً بشمول ہندوستانی اور اسلامی تحریک کے اس کے عقب میں ایک انگریزوں کے خلاف مقصد بھی تھا۔
مگر باوجود اس کے واقعات بالکل اس کے خلاف تھے۔ مسلمانان جرمنی کے تمام طبقوں میں نیز ترکوں، عربوں اور ہندی مسلمانوں میں نہ صرف اس تحریک سے مکمل علیحدگی ہی ہے۔ بلکہ وہ اس پر بے انتہا مشتبہ نظر ڈالتے ہیں۔ جماعت اسلامیہ نے احمد (مرزاقادیانی) کی تعلیمات سے کسی قسم کے بھی تعلق رکھنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ ان میں تعلیمات قرآن کے قصدا اور جان بوجھ کر غلط بیانی کی ہوئی پاتے ہیں۔
ادھر احمدی اعلان کرتے ہیں کہ ہر وہ مسجد جہاں مرزامسیح موعود مصلح عالم نہ مانا جائے