ایک مسلمان مبلغ کے انگریزی میں ایک مختصر تقریر کی۔ اسلام ایک خدا کی پرستش اور تمام بنی نوع انسان کی برادری کا اعلان کرتا ہے۔ یہ ایک امن کا پیغام ہے جو برلین جرمنی میں جو فرقہ پروئسٹنٹ کا گھر ہے سنا جانا چاہئے۔ جو نہ صرف جرمنی کا قلب ہے۔ بلکہ تمام یورپ کا ہے اور یہ مرکزی مقام ہونا چاہئے۔ جہاں سے یہ پیغام امن چمکے گا۔
یہ کہا جانا چاہئے کہ بڑی تعداد مسلمانوں کی جو برلین میں رہتی ہے۔ احمدی تحریک کے نزول کو نہ صرف احتیاطی اور مشتبہ نظر سے دیکھی ہے بلکہ نیز کھلی ہوئی دشمنی کی نظر سے۔ اس طرز عمل کے اسباب کچھ مذہبی ہیں۔ اور کچھ سیاسی، احمدی لوگ انگلستان اور انگریزی حکومت سے خاص دوستی کو مانتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو اس تحریک کی تواریخ سے واقف ہیں یہ ماننا طبعی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی جاننا چاہئے کہ صرف اس سبب سے یہ خاص مسلم حلقوں میں منافرت پیدا کرتی ہے۔ جس نے سنگ بنیاد رکھنے کی رسم کے وقت بلا روک اپنا اظہار کیا۔ مشرقی لوگ رسم میں جرمنوں سے بھی کم بہت ہی قلیل تعداد میں تھے۔ جماعت اسلامیہ برلین اس واقعہ سے بالکل الگ رہی۔ خاص کر ہندوستانی تھے۔ منجملہ ان کے ایک تعداد ہندوئوں کی تھی۔ مصری اور ترک رسم کے وقت تقریباً ایک بھی نہ تھا۔ صرف ترکی سفارت کے امام۱؎ امام شکری بے سیر دیکھنے کو موجود تھے۔
متعلق احمدیہ تحریک
ڈش ایلگم مجریہ۱۶؍اگست اشاعت صبح کے ایک آرٹیکل کا اقتباس
تحریک احمدیہ پر انگریزوں کا تنخواہ دار ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔ (ای ڈی یعنی اوٹیر)
کسی احمدی کو ایسے امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئے جو اس کا فرقہ کا نہ ہو۔ غیر احمدی کو اس کی لڑکی عقد نکاح میں نہ دینی چاہئے۔ غیر احمدی کی تجہیز وتکفین میں ایک احمدی کو حصہ نہ لینا
۱؎ اگرچہ ہم ترکش سفارت کے امام شکری بے کو ایک سیدھا مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس کی موجودگی صرف اس وجہ سے سمجھی جاسکتی ہے کہ وہ آج کل برلین میں افغان سفارت کے لئے بھی امام کا کام کررہے ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ افغانی سفیر نے جو اس فرقہ سے دوستانہ مراسم رکھنے میں مشہور ہیں۔ اپنے ہمراہ رسم میں چلنے کو کہا ہے۔