طرف سے تمہاری وہ سپر ہے۔ پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالفین جو مسلمان ہیں۔ انگریز ان سے ہزار ہا درجہ بہتر ہیں۱؎۔
غلام احمد کو معلوم تھا کہ علماء ہی وہ لوگ ہیں جو ان کی حقیقت جاننے کی وجہ سے ان کی پردہ دری کرسکتے ہیں۔ اور لوگوں کو ان کے فتنہ سے بچنے کی تلقین کرسکتے ہیں۔ اس لئے وہ سب سے زیادہ گالیاں علماء ہی کو دیتے رہے اور اپنے ماننے والوں کو ان سے نفرت کرنے پر ابھارتے رہے۔ ’’تعلیمات مسیح موعود‘‘ نامی ایک کتاب میں وہ کہتے ہیں: ’’میں اپنے تمام ماننے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان مولویوں سے سخت نفرت کا برتائو کریں جو مذہب کالبادہ اوڑھ کر انسانی خون بہاتے ہیں اور تقویٰ کے پردہ کے پیچھے انتہائی گھنائونے گناہوں کا ارتکاب کرنے میں۔ میرے ماننے والوں کا فرض ہے ۔ کہ وہ برٹش گورنمنٹ کی قدر کریں اور اس کے سامنے شکر گزاری اور احسان مندی کا اظہار کریں! اور اسے اپنی وفاداری اور اطاعت گزاری کا یقین دلائیں۔‘‘
رسول آخر الزمان غلام احمد مسلمانوں سے اپنی دوری وعلیحدگی کو ایسی نعمت گردانتے ہیں جو شکر گزاری کی مستحق ہے۔ برلن سے ڈاکٹرز کی کرام نے جاوہ کے ایک اخبار ’’حضر موت‘‘ کو ایک مضمون اشاعت کے لئے بھیجا جو اس میں بتاریخ ۸محرم ۱۳۵۱ھ شائع ہوا۔ اس مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ: ’’برلن میں قادیانی حضرات نے جو مسجد تعمیر کی ہے۔ میں اور شکیب ارسلان اس کے امام سے ملنے گئے۔ اس امام نے جو مرزا قادیانی کی ایک کتاب ہمیں دکھائی۔ امیر شکیب ارسلان نے اس کے کچھ فقرے اپنے پاس نقل کرلئے۔ اس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ وہ یعنی مرزا قادیانی اس بات پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ انگریزوں کے جھنڈے تلے اور مسلمانوںسے دور پیدا ہوئے۔‘‘
قادیانیوں کے دو گروہ
مرزا قادیانی اور ان کے خلیفہ حکیم نور الدین کے زمانہ تک تمام قادیانیوں کا ایک ہی مذہب تھا۔ لیکن حکیم نور الدین کے آخر ی دنوں میں ان کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ چنانچہ جب نور الدین کا انتقال ہوا تو وہ دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ ’’قادیان‘‘ میں تھا جس کے سرغنہ غلام احمد کے بیٹے مرزا محمود قادیانی تھے۔ اور دوسرا گروہ ’’لاہور‘‘ میں قائم ہوا
۱؎ یہ قول قادیانیوں کی عربی میں شائع کردہ کتاب ’’احمد رسول العالم الموعود‘‘ سے لیا گیا ہے۔