ویحکم ما یرید۔ اسی شبہ (اٹل قانون کی مخالفت) کو دور کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء کے مضمون کو اس جملہ پر ختم فرمایا ہے۔ ’’وکان اﷲ عزیزاً حکیما (نسائ:۱۵۸)‘‘ یعنی اﷲ غلبہ والا ہے۔ (وہ قانون کو اپنی مصلحت اور حکمت کی بناء پر بدل سکتا ہے کیونکہ) وہ حکیم (بھی) سبحانہ ما اعظم شانہ پس اس دوسری آیت سے بھی وفات مسیح ثابت نہیں ہوتی۔
تیسری آیت
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل…الخ (آل عمران:۱۴۴) یعنی محمد ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے جس قدر رسول ہوچکے ہیں۔ یقینا فوت ہوگئے۔ (ص۵) خلت کے معنے عربی زبان میں ایسے گزرنے کے ہیں کہ پھر کبھی نہ آئے (تا) لسان العرب میں ہے اعرابی لوگ بولتے ہیں: خلافلان اذا مات۔ فلاں آدمی مر گیا(ص۸) مولف ظہور امام نے آیت کے معنے میں خوب کتربیونت کی ہے۔ ’’جس قدر کا‘‘ لفظ اپنی طرف سے بڑھایا ہے۔ خلت کے تین معنے ہیں: ہوچکے ہیں، فوت ہوگئے، ایسے گزرے کہ پھر کبھی نہ آئیں گے۔ پھر اپنے پہلے معنی کی تردید خود ہی اعرابی کے قول سے (اس بے چارہ کو اعرابی لوگ بنا کر) کردی ہے۔ ابن اعرابی کا قول (خلا بمعنے مات) جمہور اہل لغت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ اہل عرب جتنے الفاظ موت کے لئے بولتے ہیں ان میں خلو مادہ کا مشتق کوئی بھی نہیں ہے۔ دیکھو فقہ اللغتہ وتہذیب الالفاظ وغیرہ کیونکہ خلو کے حقیقی معنی (جس سے خلت بنا ہے۔) دو ہی ہیں گزرنا اور خالی ہونا۔
۱… خلو کا تعلق جب زمانہ سے ہوگا تو اس کے معنی گزرنے کے ہوں گے۔ مفردات (لغت قرآن) میں ہے۔ والخلو یستعمل فی الزمان والمکان (الیٰ) خلا الزمان مضیٰ الزمان یعنی خلو کا ستعمال زمانہ اور جگہ کے لئے ہوتا ہے۔ خلا الزمان کے معنے زمانہ گزرا (نہ کہ مر گیا) شاعر کہتا ہے (دیکھو دیوان عامر)
لقد کان فیما خلا عبرۃ
وبالعلم یعتبر المبصر
یعنی جو زمانہ گزر گیا اس میں اولوالابصار کے لئے عبرت ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ ’’بما اسلفتم فی الایام الخالیۃ (حاقہ:۲۴)‘‘ یعنی (عیش کرو) بدلہ میں اس کے جو تم نے گزشتہ زمانہ میں کیا۔ مرزائیوں کے نزدیک اس کا ترجمہ یوں ہوگا ’’بدلہ میں اس کے جو تم