الاسلام مدن پورہ کے اشتہار پر خامہ فرسائی کی ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ صوبہ بہار کے مشہور شہر چھپرہ میں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا اٹھارہوں سالانہ جلسہ ۸،۹؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو اور آل انڈیا اہلحدیث لیگ کا دوسرا سالانہ جلسہ ۱۰؍دسمبر ۳۳ء کو ہونے والا تھا۔ (چنانچہ ہوا) ان دونوں جلسوں کی شرکت کے لئے شیر پنجاب فاتح قادیان جناب مولانا ابو الوفاء ثناء اﷲ صاحب امرتسری (متعنا اﷲ بطول بقائہ) ۶؍دسمبر ۳۳ء کو بنارس سے گزرنے والے تھے۔ اراکین انجمن مذکور کے بے حد اصرار سے جناب مولانا ممدوح نے ایک شب کے لئے بنارس قیام فرمانا اور تقریر کرنا منظور فرمالیا تھا۔ اراکین انجمن نے مولانا کے وعظ کا اشتہار شائع کیا۔ مجاہد صاحب نے جھٹ ایک ’’کھلی چھٹی‘‘ مولانا موصوف کے نام شائع کردی اور مولانا کی تقریر شروع ہونے سے چند منٹ پہلے جلسہ میں تقسیم کرنا شروع کی۔ صدر انجمن نے نہایت فراخ حوصلگی سے مجاہد صاحب کو شکوک پیش کرنے کی تحریری اجازت دے دی۔ مجاہد صاحب جو صرف اپنے کیمپ میں ہی جہاد کرنا جانتے تھے۔ شیر پنجاب کے مقابل آنے کی ہمت نہ کرسکے اور جلسہ ختم ہوجانے کے بعد ایک تحریر پر تزویر بھیج دی جس میں اراکین انجمن پر کچھ الزام دھر دیا اور مولانا امرتسری پر سوقیانہ حملہ بھی۔ جیسا کہ اہل بنارس لئے انجمن کے اشتہار میں فریقین کے خطوط سے معلوم کرلیا ہوگا۔ اراکین انجمن نے گفتگو کے لئے دوسرے روز صبح پھر ایک موقع دیا۔ لیکن مجاہد صاحب نہ آئے۔ اور بقول ’’کھسیانی بلی کھنبہ نوچے‘‘ اپنی خجالت مٹانے کو ایک اشتہار شائع کردیا جس کی سرخی رکھی ’’مولوی ثناء اللہ امر تسری کے حالات علم وتقوی‘‘ اس اشتہار میں۔
مجاہد کے اشتہار کا جواب
از اوّل تا آخر جھوٹ ہی جھوٹ بکا چنانچہ نمبروار ملاحظہ ہو:
پہلا جھوٹ… ’’ظہور امام نمبر۱ کا جواب کسی سے بھی بن نہ پڑا‘‘ حالانکہ مدن پورہ کی انجمن زاد آخرت نے صولت اسدیہ کے نام سے اس کا جواب عرصہ ہوا، دے دیا تھا۔ اور ہمارا جواب زیر طبع ہے۔
دوسرا جھوٹ… ’’ٹریکٹ نمبر۲ کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی‘‘ حالانکہ اس کا جواب اسی وقت لکھ دیا گیا تھا جو ناظرین کے ہاتھوں میں ہے۔
تیسرا جھوٹ… ’’مولوی ثناء اﷲ امرتسری سے ہمارے خلاف لیکچر کرانے کی سوجھی۔‘‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو خاص لیکچر دینے کے لئے بلایا گیا تھاحالانکہ وہ اہلحدیث کانفرنس کے سالانہ جلسہ کی صدارت کے لئے چھپرہ تشریف لے جارہے تھے۔