درمیان والے زمانہ میں کونسے انبیاء اور رسل گزر چکے ہیں۔ جن کے انکار کی وجہ سے مصائب اور بلائیں آتی رہیں۔ تفصیل نہ بتا سکیں تو اجمالاً سہی۔ ان کے نام ہی بتا دیں۔ لیکن مرزا قادیانی کا یہ قول پیش نظر رکھیں:
’’جس قدر مجھ سے پہلے… گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ‘ کثیر اس نعمت (نبوت) کا نہیں دیا گیا… نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶، ۴۰۷)
پس جب مرزا قادیانی اور آنحضرتﷺ کے مابین زمانہ میں کوئی رسول آیا ہی نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے قول وما کنا معذبین…الخ کے خلاف ہر صدی اور ہر زمانہ میں کیوں آسمانی اور زمینی بلائیں بھیجیں؟ ماہو جوابکم ہو جوابنا!
پہلی آیت
ولکم فی الارض مستقر ومتاع الیٰ حین (بقرہ:۳۶) تمہارے لئے زمانہ میں ٹھہرنا اور ایک میعاد تک فائدہ اٹھانا ہے (تا) حضرت عیسیٰ بحیثیت انسان ہونے کے اس قانون خداوندی سے… نہیںبچے (ص۴) سنئے جناب!قانون الٰہی یہ بھی ہے کہ خاص موقع میں کسی حکمت اور مصلحت کی بناء پر ان قوانین جاریہ کے خلاف تصرف کیا جائے، کیونکہ قانون بنانے والا اپنے قانون میں تغیر وتبدل بھی کرسکتا ہے۔ ورنہ معجزات اور کرامات سے بھی انکار کرنا پڑے گا۔
۲… آیت مذکورہ میں زمین کو انسانوں کے لئے قرار اصلی اور طبعی طور پر فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ اس زمین پر پیدا ہوئے اور رہے۔ پھر نزول کے بعد بھی اسی پر قیام کریں گے اور اسی زمین پر ان کو موت آئے گی البتہ عارضی طور پر کچھ مدت کے لئے کسی دوسری جگہ (آسمان) کا ان کے لئے جائے قرار بن جانا آیت مذکور کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا فرشتوں کی جائے قرار اصلی اور طبعی طور سے آسمان ہیں مگر وہ عارضی طور سے کچھ مدت کے لئے زمین پر بھی رہتے ہیں۔ پس حضرت عیسیٰ کا کچھ عرصہ تک عارضی طور سے کرہ زمین کو چھوڑ کر کسی دوسرے کرہ (آسمان) پر باذن اﷲ قرار پکڑنا ہرگز تعجب انگیز نہیں ہے۔ نئی سائنس سے بھی علاوہ کرۂ زمین کے دوسرے آسمانی کروں (مریخ وغیرہ) میں انسانی اور حیوانی آبادیوں کا ہونا ثابت ہوچکا ہے جس کی خبر قرآن حکیم