حکومت سے تعلق ہے۔ اس وائسرائے کے دوران حکومت میں مجاہدین (ہندوستانی مذہبی جنگجو) کے حملہ بشمول سرحدی اقوام درمیان افغانستان وہند بہت کثرت اور تند ہونے لگے۔ اس وجہ سے لارڈ کرزن نے ہند کے اس حصہ پر بہت سی انتظامی تبدیلیاں کرکے خاص توجہ مبذول کی جس کے لئے ان کو خاص پروپیگنڈہ کی ضرورت ہوئی۔
چونکہ انگریزوں نے ہند کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی ایک تعداد سرگرم جنگ کرنے والوں کی جن کو مجاہدین کہتے ہیں۔ سرحدی اضلاع کو ہجرت کر گئی جن کو وقتاً فوقتاً نئے مہاجرین سے تقویت پہنچتی رہی۔ یہ مجاہدین عقیدہ جہاد (مذہبی جنگ) پر کامل اعتقاد رکھتے ہیں اور بموجب تعلیم قرآنی انگریزوں کو اس جگہ سے نکالنے میں کوشاں ہیں۔ جہاں سے انگریزوں نے ان کو نکالا ہے۔ (قرآن۲، ۱۹۱) یہ عقیدہ جہاد پر خاص عمل کرنا انگریزوں کے لئے ہے۔ باعث صدزحمت تھا۔ انگریزوں کے لئے اس تکلیف کے ذریعہ کو رفع کرنا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ علاوہ بریں اسی زمانہ میں ایک نئی تحریک ہندوئوں میں شروع ہوئی جو آریہ سماج کہلاتی ہے۔ یہ تحریک بھی انگریزوں کے موافق نہ تھی۔
ایسی حالتوں میں ایک ایسے شخص کی صورت میں انگریزوں کو غیبی مدد ملی جس کے باپ، چچائوں اور دیگر اقرباء نے ۱۸۵۷ء کی عظیم جنگ میں انگریزوں کی شاندار خدمات انجام دے کر امتیاز حاصل کیا تھا۔ جب کہ انگریزوں کی حکومت ہند میں متزلزل تھی۔ (دیکھو سپاسنامہ پرنس آف ویلز از جماعت احمدیہ) اس شخص کا نام مرزا غلام احمد تھا۔اس نے مسیح موعود مہدی (رہبر المسلمین جن کے بارے میں اعتقاد ہے کہ اغیار کی غلامی سے نجات دلائیں گے) اور اوتار کرشن ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس نے ان دعوئوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے الہام خصوصی پر رکھی۔ جس نے اس کو خدا کا رسول بھی ظاہر کیا۔ اس اسناد کے ساتھ اس کو امید تھی کہ وہ مسلمانوں اور ہندوئوں کی پوری اطاعت حاصل کرلے گا۔
۲… فرقہ کے اصول
باوجود ان عظیم الشان دعوئوں کے وہ اسلام کو چھوڑنے کی جرأت نہ کرسکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اسلام کی تمام تعلیم کو تسلیم کیا۔ صرف تمام عالم کے علماء کے خلاف نئے اور ایر پھیر کے معنی کئے۔ لیکن بحیثیت ایک آزاد نبی کے اس نے نہایت زور اور سرگرمی سے حسب ذیل تعلیم دی جو اس کے فرقہ یا پیشین گوئی کے امتیازی امور ہیں۔