M
۴؍اپریل ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے بعد مرزا قادیانی نے اپنی غفلت پر سخت پشیمان ہوکر فوراً ایک زلزلہ کے آنے کی پیش گوئی کردی اور ایک بہت لمبی چوڑی نظم کے پیچھے جو معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی بہت مدت سے لکھ رہے تھے۔ بارہ اشعار اس مضمون کے بھی چسپاں کردئیے کہ جن میں کسی آئندہ زلزلہ سے لوگوں کو ڈرایا گیا تھا۔ غرضیکہ یہ شیطان کی آنت جیسی لمبی نظم ۱۵؍اپریل ۱۹۰۵ء کو ختم ہوئی۔ مگر جب مرزا قادیانی انتظار کرتے کرتے تھک گئے اور تین سال تک بھی کوئی زلزلہ ظہور میں نہ آیا اور مرزا قادیانی کو سخت ندامت اور رسوائی نصیب ہوئی تو براہین احمدیہ حصہ پنجم (مرزا قادیانی کی کتاب) کے اخیر میں اس نظم کو درج کرکے اس شعر:
یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے
کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بہار
پر تیس سال کے بعد ایک نوٹ لکھ دیا کہ ’’خدا کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا جو نمونہ قیامت ہوگا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہئے جس کی طرف سورۃ اذا زلزلت الارض زلزالہا اشارۃ کرتی ہے۔ لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۳۰، خزائن ج۲۱ ص۱۵۱) ورنہ اس سے قبل مرزا قادیانی ایک سخت زلزلہ ہی کے منتظر تھے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو سراج الاخبار جہلم مطبوعہ ۹؍اپریل ۱۹۱۷ء کی مندرجہ ذیل عبارت
مرزا قادیانی کے الہامات
’’مرزا قادیانی کے الہامات بھی عجیب ہوتے ہیں جب کوئی واقعہ دنیا میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مرزائیوں کے خیال میں مرزا قادیانی کے کسی نہ کسی الہام یا پیش گوئی کی پخ اس کو ضرور لگی ہوئی ہوتی ہے۔ طاعون ہو تو مرزا قادیانی کا الہام پورا ہوتا ہے۔ کوئی زلزلہ آجائے تومرزا قادیانی کا نشان پورا ہوتا ہے۔ کوئی مر جائے تو مرزا قادیانی کی پیش گوئی پورئی ہوئی۔ غرض کوئی حادثہ قیامت تک ایسا نہیں ہوسکتا جس میں مرزا قادیانی کے الہام یا پیش گوئی کی صداقت کی دلیل نہ ہواور طرفہ یہ کہ آپ کی پیش گوئی یا الہام کسی بھلائی کے متعلق نہیں ہوتا بلکہ آپ کے الہامات اہل دنیا کی ہلاکت، تباہی اور طرح طرح کی آفات ارضی وسماوی اور مشکلات کا ہی باعث ہوتے ہیں ۔