۱۹۰۸ء میں وہ لاہور گئے۔ جب وہاں پہنچے تو مسلمانوں نے ان کی آمد پر سخت احتجاج کیا۔ جس مکان میں ان کا قیام تھا اس سے باہر میدان میں ہر روز عصر کے بعد علماء جمع ہوکر تقریریں کرتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ اس شخص کے تمام دعوے باطل ہیں۔ ان کے دھوکہ میں نہ آئیں۔
مرزا غلام احمد کو مرض اسہال کی شکایت تھی۔ قیام لاہور کے دوران ان کا یہ مرض شدت اختیار کرگیا اور اسی سبب سے ۱۹۰۸ء مطابق ۱۳۲۶ھ میں وبائی ہیضہ سے ان کا خاتمہ ہوگیا ان کی لاش قادیان لائی گئی اور وہیں دفن کی گئی۔ ان کے بعد ان کے ماننے والوں نے حکیم نور الدین کو اپنے مذہب کا پہلا خلیفہ منتخب کیا۔
۱۹۱۴ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو بانی سلسلہ مرزا غلام احمد کے بیٹے بشیر الدین محمود کو دوسرا خلیفہ چنا گیا اور اب تک وہی چلے جارہے ہیں۔
مرزا قادیانی کی طرف سے وحی، نبوت اور رسالت کا دعویٰ
مرزاغلام احمد کا دعویٰ ہے کہ ان پر وحی نازل ہتی ہے۔ اپنے الہامی خطبہ میں کہتے ہیں یہی وہ کتاب ہے جس کا ایک حصہ رب العباد کی طرف سے مجھ پر کسی عید میں وحی کیاگیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ طاعون کے نزول سے پیشتر میرے رب کی طرف سے کہتے… کہ شاید وحی سے ان کی مراد الہام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ واوحیٰ ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً (النحل:۶۸) ‘‘ {یعنی اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی یا الہام کیا کہ پہاڑوں میں اپنا گھر بنائے} اس وقت صرف یہ دیکھا جاتا کہ ان پر ہونے والا الہام کیسا ہے؟ اگر وہ دینی نصوص واحکام کے مطابق ہوتا تو ہم خاموش رہتے اور اگر ان میں سے کسی چیز کے خلاف ہوتا تو ہم اسے ٹھکرا دیتے اور ماننے سے انکار کردیتے۔ لیکن وہ تو اپنی کتابوں میں صاف اور بار بار اعلان کرتے ہیں کہ میں نبی اور رسول ہوں۔ اپنے نام نہاد