مقابلہ تھے اور اس کتاب میں کوئی صریح دعویٰ بھی کسی صریح نص کے خلاف نہیں کیا تھا۔ اسی وجہ سے علماء نے یہ خیال کیا کہ دشمن کو مرعوب کرنے کی غرض سے انہوں نے الحرب خدعۃ کا لحاظ کرکے اس قسم کے کلمات بولے ہیں اور بہت سے اقوال میں تاویل کردی کہ یہ مثیل انبیاء کا اپنے کو اس وجہ سے کہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے اس وجہ سے فرمایا کہ میری امت کے علماء مثل انبیاء بنی اسرائیل کے ہوں گے۔
دعویٰ مسیحیت
غرض اکثر علماء یہاں تک تو مرزا قادیانی سے محبت رکھتے رہے لیکن ۱۳۰۸ھ (۱۸۹۰ئ) میں فتح اسلام، توضیح مرام، ازالہ اوہام شائع کئے تو ان میں صاف کہہ دیا کہ اس سے پیشتر جو میں نے براہین میں عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا اقرار کیا ہے۔ وہ عوام کے اعتقاد کے مطابق کہہ دیا ہے اور اب مجھ پر میرے اللہ نے اس قدر وحی کی ہے کہ میں یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے اور احادیث میں جو عیسیٰ علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے وہ میں ہوں۔
(ازالہ اوہام ص۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲)
فرماتے ہیں:
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تا بنہد پا بمنبرم
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
مرزا قادیانی نے اپنے کلاموں سے تعارض دفعہ کیا ہے اور اس کو ان کے چیلے چانٹے آمنا وصدقنا کہتے ہیں۔ لیکن اہل بصیرت پر مخفی نہیں کہ مرزا قادیانی نے براہین میں یہ نہیں کہا ہے کہ میں اپنی طرف سے کہتا ہوں کہ بلکہ براہین میں جو کہا ہے کہ ’’حضرت مسیح علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیلے گا۔(براہین احمدیہ ص۳۹۹، خزائن ج۱ص۵۹۳)‘‘ اس مقولہ کو بھی دوسرے الہاموں کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔ پس جب یہ دونوں الہام ہیں تو ان دونوں میں سے اہل عقل کے نزدیک ایک ضرور جھوٹا ہے اور اگر دونوں مرزا قادیانی نے بنائے ہیں تو مرزا قادیانی خود جھوٹے ہیں اور جھوٹوں پر انہوں نے آپ لعنت کی ہے۔ فحسب۔