حقیقت الوحی
فی الجملہ اس کتاب کو انہوں نے چار باب پر منقسم کیا ہے۔ پہلے دوسرے اور تیسرے باب میں زٹلیات ہانکتے ہوئے نہ صرف اپنے بلکہ تمام شوخ زنادقہ مثل خود کے لئے دروحی منزہ ازدخل شیاطین کو وا کیا ہے اور باب چہارم میں اپنی نبوت اور رسالت کے کچھ کم دو سو نشانات نقل کئے ہیں جو بعد حذف مکررات اس سے بہت کم ہوں گے اور جو سراپا لغویات وحشویات وکذب وفریب وزور سے پر ہیں اور جو دیوانوں کی بڑ اور بلی کو چھیچھڑوں کے خواب کی مثال سے بھی زیادہ گرے ہوئے ہیں۔ چونکہ موضوع اور مال اس طومارلا یعنی کا اپنا زندہ رہنے اور بعض اہل علم کے انتقال فرمانے کو نشان نبوت خود ظاہر کرنا ہے اور جن کی فہرست میں اسم مبارک سیدی ومولائی مولوی محی الدین عبدالرحمن لکھوی مدنی شہید بھی ہے کہ جو بموجب اپنے الہامات صادقہ عدنفسک من اصحاب الرسول اللہ ﷺ ویا جامع الناس لیوم لاریب فیہ ان اﷲ لا یخلف المیعاد، فاجمع بینی وبین محمد فی الدنیا والآخرۃ یاایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔ مدینہ منورہ میںشہید ہوکر جنت البقیع میں مدفون ہوئے اور جن کی برکت دعا والہام ان شانئک ہو الابتر سے ہی مرزا قادیانی ہر جگہ خائب خاسر رہتے ہیں اور جن کی تاریخ شہادت… صادقین رانور حق تا بدمدام کی برکت سے جس میں اشارہ ہے اس احقر کے نام کی طرف اور جو فے الواقع آلہ ہے اس نور کے درخشاں ہونے کا۔ مرزا کے عقائد کفریہ کی ظاہراً وباطناً پوری پوری تردید ہوتی رہتی ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مرزا کے وہمی اور سحری سانپوں مضامین حقیقت الوحی کے صفحات حقیقت الوحی پر چھٹ کر عوام الناس کو مرعوب وخائف کرنے سے پہلے ہی ایک ایسا عصاء موسیٰ مضمون نشان آسمانی سے مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے ثابت ہونے کا بہت تھوڑا حصہ مندرجہ مرقع قادیانی بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۷ء قائم کررکھا تھا کہ جس نے ان تمام جادو کے سانپوں کو اژدھا، حقانی بنکر دفعتاً نگل لیا۔ اب آپ اس کو الہام کہو یا پیشین گوئی یا فراست صادقہ یا کرامت، میں تو آپ کے اسی الہام کی برکت جو مرزا کے حق میں ان شانئک ہو الابتر کہوں گا۔ الغرض چونکہ خلاصہ اور لب لباب اس کتاب کا اہل علم کی موت پر استہزاء کرنا اور اپنی کرامت جتانا ہے۔ اس واسطے اس امر کی تردید کرنی ضروری خیال میں آئی مگر بوجہ