میموریل تیار کرکے ہزاکسیلنسی لارڈ الگن وائسرائے وقت کی خدمت میں روانہ کیا۔ جو چھاپ کر عام طور پر شائع بھی کیا گیا تھا۔ جس میں اس نے وائسرائے کو بتایا تھا کہ کس طرح تمام بد نظمیوں اور تکالیف کی جڑ مذہبی جھگڑے ہیں۔ مذہبی نزاعات پبلک کے قلوب میں جوش پیدا کردیتے ہیں اور شریر لوگ اس جوش سے فائدہ اٹھاتے اور اس کو حکومت کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا مسیح موعود نے رائے دی کہ مذہبی مباحثوں میں بد زبانی کو قانون کی حد میں لانا چاہئے اور تجویز کیا کہ ایک قانون بنایا جائے جو ہر مذہب کے متبعین کو اپنے مذہب کی خوبیوں کو بیان کرنے میں آزاد چھوڑ کر کسی مخالف آئین پر حملہ کرنے سے روکے واقعہ یہ ہے کہ ندوستان میں تمام مصائب کی جڑ مذہبی اختلاف میں واقع ہے جو بحث کے ایک عجیب اور ہوشیاری کے طریقہ سے بذریعہ شریر لوگوں کے حکومت کے خلاف بطور ایک آلہ کے استعمال کئے جاتے ہیں اس طرح جب کبھی ایک مذہب پر جس کو اس کے متبعین بے انتہا عزیز ریکھتے ہیں کوئی کمینہ حملہ کیا جاتا ہے تو گورنمنٹ سے جاہل مجمع کو بدگمان کرنے کے لئے شریروں کے مقصد کو یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ یہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے جو اس قسم کی زیادتیوں کی اجازت دیتی ہے۔ اس پر مجمع اصلی مجرم کو نظر انداز کردیتے ہیں اور گورنمنٹ سے ناخوش ہوجاتے ہیں۔
سیاسی ایجی ٹیشن کی طرف اس کا طرز عمل
’’ستمبر۱۹۰۷ء میں اس کا بیٹا مبارک احمد ساڑھے آٹھ برس کی عمر میں بموجب پیشین گوئی کے مر گیا جو اس کی پیدائش کے وقت کی گئی تھی۔ اسی سال میں مختلف قصبات میں صدر انجمن کی شاخیں قائم کرنے کے لئے قدم اٹھائے گئے۔ اسی سال تمام پنجاب میں زبردست سیاسی ایجی ٹیشن تھا۔ بعض اضلاع بغاوت کے لئے بالکل آمادہ تھے۔ ان حالات میں اس نے اپنے متبعین کے نام اس مضمون کا ایک نوٹس جاری کیا کہ وہ گورنمنٹ کی وفاداری میں مستقل رہیں اور اس کی ہدایت کی تعمیل میں اس کے متبعین نے بہت سی بدنظمی کو دبانے کیلئے آزادی سے اپنی خدمات پیش کردیں۔‘‘
ایک افغانی الٹی میٹم
ترجمہ چٹھی ۱۸۱۶ از سفیر افغانستان متعینہ جرمنی لیسنگ اسٹرا سے نمبر۹ برلین مورخہ ۶؍ستمبر ۱۹۲۳ء بنام ڈاکٹر منصور ایم رفعت برلین ڈبلیو نمبر۵۰۔
آپ نے اپنے پمفلٹ موسومہ ’’دی احمدیہ سیکٹ‘‘ جو آپ نے ماہ اگست ۱۹۲۳ء میں