احادیث سے متعلق
ص۲ میں لکھا ہے ’’احادیث کی کیا وقعت ہوسکتی ہے‘‘ پھر خود ہی ص۳ میں تحریر کیا۔ ’’احادیث کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔‘‘ ایک جگہ انکار دوسری جگہ قبول ہے۔ ص۱۹ میں صحیح بخاری اور ابن ماجہ کو‘ معاریض ابراہیم علیہ السلام اور سحر نبی کے ذکر میں۔ غیر معتبر تفاسیر کے ساتھ شامل کردیا ہے اور ص۱۸ میں لکھا ہے کہ ’’ہم احمدی ان باتوں کو غلط سمجھتے ہیں’’ پھر خود ہی ص۱۷ میں صحیح بخاری وابن ماجہ کو ’’دنیائے اسلام کی معتبر اور مستند کتب احادیث‘‘ میں شمار کیا ہے اور ص۱۵ میں من السماء کی بحث میں صحیح بخاری کو بطور شاہد کے پیش کیا ہے۔ یہاں غلط بات والی کتاب صحیح ہوگئی۔ ص۱۲ میں جھوٹی حدیث بیان کرنے والے کو جہنمی بتایا ہے اور پھر خود ہی ص۱۵ میں لوکان عیسیٰ حیا کی جھوٹی روایت اور ص۲ کی آخری سطر میں ماوافق کتاب اﷲ فاقبلوہ وان خالفہ فردوہ (جو حدیث قرآن کے مطابق ہو اسے صحیح سمجھنا جو مخالف ہو اسے رد کردینا) کی موضوع حدیث (دیکھو موضوعات صغانی ص۱۱) وتذکرہ الموضوعات ص۲۸ بیان کی ہے۔ ص۲۲ میں مشکوٰۃ فصل ثالث کی حدیث کو ’’تھرڈ کلاس‘‘ کی حدیث قرار دیا ہے۔ حالانکہ صاحب مشکوٰۃ کے فصل ثالث میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیثیں بھی نقل کرتے ہیں، شروع مشکوٰۃ کا ص۸ ہی دیکھ لو، امام بخاری ومسلم کی حدیثوں کو صاحب مشکوٰۃ نے ص۳ میں اعلیٰ درجہ (فرسٹ کلاس) کی حدیث کہا ہے۔ لیکن مجاہد صاحب کے قاعدہ سے بخاری ومسلم کی روایت بھی بوجہ فصل ثالث میں مذکور ہونے کے تھرڈ کلاس کی حدیث ہوگئی۔ یہ ہے ان مرزائیوں کے قلب پر کینہ میں احادیث نبویہ کی عزت اور یہ ہے ان کا محدثانہ نظرو اجتہاد۔
ہربو الہوس نے عشق پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
بزرگان سلف پراتہام
مجاہد صاحب نے بڑی جدوجہد سے، سلف وخلف کے بعض معروف اور غیر معروف حضرات میں سے بیس نام گنوائے ہیں جو ان کے زعم فاسد میں ’’وفات عیسیٰ‘‘ کے قائل تھے۔ اور ان کے اقوال پیش کرنے کا وعدہ آئندہ کسی ٹریکٹ پر اٹھا رکھا ہے۔ ص۳
مرزائیوں کی یہ بڑی جسارت اور ان کا صریح اتہام ہے جسے وہ لوگ بزرگان سلف کے سرمنڈھتے ہیں۔ ان یقولون الامنکر امن القول وزورا۔ ذیل میں ہم ان بزرگان سلف سے نام بنام بتائیں گے کہ وہ ہرگز ہرگز ان قادیانیوں کے ہم خیال نہ تھے اور یہ کہ ان کا دامن اس