مرزا قادیانی کی ایک اپنی تحریر میں اقرار موجود ہے کہ اگر عیسائیت کو چھوڑ کر حق کی طرف رجوع نہ کرے تو اندرون میعاد فوت ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ آتھم نے عیسائیت کو چھوڑا یا نہیں؟ بڑی دقت یہ ہے کہ آتھم کا عیسائیت پر فوت ہونا دنیا کو معلوم تھا ورنہ مرزا قادیانی سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ وہ یہ کہہ دیتے کہ آتھم مسلمان ہوگیا تھا۔ رہا یہ کہ اسلام کے مقابل کوئی لفظ زبان سے نہ نکالنا، اگر اسی کا نام رجوع الی الحق ہے۔ (البشریٰ ج۲ ص۳۷) تو مرزا قادیانی نے جو عدالت گورداسپور میں یہ عہد کیا ہے کہ ’’میں کسی کی موت اور ذلت کے بارے میں ہرگز الہام بیان نہ کروں گا۔‘‘ تو کیا یہ اپنے ملہم ہونے سے رجوع ہے؟
دوسرا جواب کہ اسکا پریشان اور سرگرداں پھرنا یہی حاویہ میں گرنا ہے تو ناظرین سزائے موت کو اس کے ساتھ ملا کر جو کہ مرزا قادیانی کا الہام ہے خود ہی انصاف کرلیں۔ تفصیل کے واسطے ملاحظہ ہو الہامات مرزا: (مصنفہ مولانا ثناء اللہ امرتسری)
پیش گوئی بابت نکاح دختر احمد بیگ
’’اس شخص (احمد بیگ) کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اورا یک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تما م برکت اور رحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۹۹ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا اور ان کے گھر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانے میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ص۱۵۷ تا ۱۵۸ ج۱)
گزشتہ الہام کا فیصلہ تو مرزا قادیانی کی موجودگی میں ہوچکا تھا اور اس الہام کے بعض نمبروں کا ان کے سامنے فیصلہ ہوگیا اور بعض کی حسرت لے کر مرزا قادیانی تشریف لے گئے۔ اور خوش اعتقادوں کے بزبان حال یہ کہہ گئے کہ میرا تو یہ حال ہوا تم بھی میرے حال زار سے عبرت پکڑو۔
من نہ کردم شما حذر بکنید